• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برلن ہوٹل کے استقبالیہ پر کھڑی خوبصورت حسینہ سے ہوٹل کا وزٹنگ کارڈ مانگا تو جواب آیاno english only german بڑی مشکل سے اس کے ایک ساتھی کی مدد سے اسے سمجھایا کہ بی بی! ہوٹل کے کچھ وزٹنگ کارڈ دے دیں ہمیں راستوں کا معلوم نہیں۔ ٹیکسی ڈرائیور کو وزٹنگ کارڈ دکھا کر واپس ہوٹل بھی آنا ہے۔ اس نے کہا صرف ایک کارڈ ملے گا۔ ہم نے کہا بی بی کیوں؟ ہم تو 16 ہیں۔کہنے لگی یہ کارڈ تم لوگ کچھ دیر بعد کہیں پھینکو گے توہمارا ماحول آلودہ ہوگا، او تیری خیر! ببلو آصف بولا۔ پاکستان کنا چنگا اے (پاکستان کتنا اچھا ہے) ماریہ نے پوچھا یہ اتنا خوش کیوں ہے میں نے کہا اسے اپنا پاکستان یاد آرہا ہے۔وہاں ملنے والی آزادی پر نعرے لگا رہا ہے۔ جرمنوں کی قسمت کو رو رہا ہے اور کہہ رہا ہے اس گوری میم کو کیا پتہ ہم کتنی زندہ دل اور آزاد قوم ہیں۔ یہ ایک وزٹنگ کارڈ کو رو رہی ہے۔ ہم روزانہ بنڈلوں کے بنڈل کاغذوں کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں اور جگہ جگہ نان پکوڑے کھا کر اخبار کے ٹکڑے زمین پر پھینکتے ہیں، پلاسٹک کے شاپنگ بیگوں میں گرم سالن ڈال کر نان چھولے گھروں اور دفاتر میں لے جاتے ہیں اور پھر خالی شاپر گٹروں میں پھینک دیتے ہیں۔ پیزا کھانے کے بعد اس کا بڑا ڈبہ اٹھا کر گھر کے باہر دے مارتے ہیں۔ سڑکوں کے کنارے گندگی کے بڑے بڑے ڈھیر ہمارے کلچر کو آلودہ نہیں کرتے۔ میں نے ببلو کو ٹوکا اور کہا ہاں مگر ہمارے صاف ستھرے ذہنوں کو گندا بھی تو کرتے ہیں۔ ببلو نے کہاکہ آپ ماریہ کو ہماری دائمی صورت حال تو بیان کریں کہ ہم کتنے آزاد لوگ ہیں، گھروں کا کچرا اپنے یا دوسروں کے سامنے رکھ کر کیا مزا آتا ہے۔ میں نے ماریہ کو ببلو کے ’’زریں اقوال‘‘ سے آگاہ کیا تو ماریہ حیرت سے چیخی Are you crazy (کیا تم دیوانے ہو؟) میں سوچ بھی نہیں سکتی کہ تم لوگ اپنی آزادی کا اتنا غلط استعمال کرسکتے ہو۔ کیا تمہیں کوئی پوچھنے والا نہیں؟ کوئی تمہیں پکڑتا نہیں؟ کیا ایسی حرکت پر کسی قسم کا جرمانہ یا سزا نہیں ملتی؟ میں نے دل میں کہا سانوں اللہ ای پچھے گا۔ میں نے ماریہ سے کہا میری جان! ہمارے ہاں ادارے موجود ہیں ، قوانین بھی ہیں مگر ان اداروں میں کام کرنے والوں کو تم ہڈ حرام کہہ سکتی ہو۔ لوگوں کو اپنے حقوق، ان کی پاس داری اور قوانین سے کوئی آشنائی نہیں، ہمارے تعلیمی نظام میں ایسا کچھ نہیں کہ جس سے بچوں کی عملی زندگی میں تربیت ہو سکے۔ اگر کہیں خوش قسمتی سے قانون حرکت میں آ ہی جائے تو سفارش کام آجاتی ہے یا لوگ فوری حل کے طور پر ’’مٹھی گرم‘‘ کرکے یہ کہتے آگے بڑھ جاتے ہیں کہ اے پیا جے تہاڈا قانون تے قانون والے۔ انہیں اس بات کی کوئی فکر نہیں کہ گلوبل وارمنگ خاموش تباہی لا رہی ہے۔ آج دنیا میں سب سے بڑا مسئلہ یہی ہے اور ماحولیاتی تبدیلی نے بڑی بڑی سپرپاور کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ اس حوالے سے دنیا بھر میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں اورمقامی حکومتوں کی توجہ ماحولیاتی تبدیلیوں سے تباہی اور اس کے اثرات کی جانب مبذول کرائی جارہی ہے مگر ہم محض ایٹمی قوت بننے پراترا رہے ہیں اور ماحولیاتی آلودگی سے ہونے والی تباہی پرآنکھیں بند کئے بیٹھے ہیں۔ عمران حکومت کی ملک بھر میں درخت لگانے کی مہم یقیناً قابل ستائش ہے یہاں بڑے خان صاحب کو تھینک یو کہنا ہے کہ انہوں نے گزشتہ کالم میں میری دی گئی تجویز پر عمل کرتے ہوئے گورنر ہائوسز کو عجائب گھر اور چند تاریخی سرکاری عمارتوں کو ہوٹل بنانے کا اعلان کیا ہے۔ مگر اصل کام اپنے اردگرد کے ماحول کو آلودہ ہونے سے بچانا ہے اور یہ کام اپنے گھر سے ہی شروع کریں گے تو جنگلوں، پہاڑوں، دریائوں، نہروں، چشموں، سرسبز میدانوں کی حفاظت ممکن ہے ورنہ یہ ماحولیاتی تبدیلیاں آپ کی فصلوں سے لے کر نسلوں تک کو کھا جائیں گی۔ ماحولیاتی تبدیلی کے باعث موسم کی تبدیلی نے جو اثرات ہماری زراعت پر مرتب کئے ہیں اس سے ہمارا کاشت کارتباہی کے سفر پر گامزن ہے۔ آئندہ معیشت اورزراعت کاانحصار ان تبدیلیوں پر ہی ہوگا۔ ماریہ پھر چیخی are you serious (کیا تم سنجیدہ ہو؟)۔ جی میں سنجیدہ ہوں۔ خیر چند لمحے گفتگو کے بعد ہماری پہلی منزل برلن کے وسط میں کسی فاسٹ فوڈ ، ریسٹورنٹ میں رات کا کھانا کھانا تھی مگر میری منزل اس شہر میں خاموشی سے آبسنے والا جان سے بھی پیارا عمران اور ریحان (میرے چھوٹے بھائی) جیسا دانیال وسیم ہے ۔ دانیال برسوں سے کوئٹہ چھوڑ کر برلن کی گلیوں، بازاروں میں اپنے خوابوں کی تلاش میں گھوم رہا ہے۔ اس نے بڑے گرم سرد موسم دیکھے ہیں۔ وہ سخت جان ہے مگر اس کی آنکھوں میں دہائیوں کی کہانی ہے۔ وہ کہیں کھو گیا تھا۔ گزشتہ سال ہی سوشل میڈیا کے ذریعے مجھے ملا۔ میری کھانے کی بھوک کا احساس اب ختم ہو چکا ہے۔ دانیال کو فون کیا میں آرہا ہوں۔ وہ میرا منتظر ہے۔ ماریہ ہوٹل میں آرام کرنا چاہتی ہے۔ میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ زیر زمین ٹرانزٹ ٹرین کے ذریعے تقریباً پندرہ منٹ کی مسافت طے کرکے alexander platz کے اندر بنے اسٹیشن پر اترتا ہوں، میرے ساتھی جلدی جلدی مختلف ریسٹورنٹ میں چلے جاتے ہیں اور میں بے چینی سے دانیال کا منتظر ہوں۔ وہ میرے سامنے کھڑا ہے، سالوں کے بچھڑنے کا احساس اس کی آنکھوں میں آنسوئوں کی شکل میں بہہ رہا ہے۔ وہ سکتے میں ہے۔ میری آنکھوں میں بھی دکھ ، درد، پیار کی آنسوئوں سے لبریز آبشاررواں ہے۔ دانیال نے کہا آپ ذرا کچھ لمحے میرے سامنے رکیں۔ میں بڑے بھائی کو اپنے احساسات میں سمونا چاہتا ہوں۔ پھر اس نے اپنے ہاتھ سے زمین پر ایک لکیر کھینچی اور دیر تک مجھے دیکھتا رہا۔ اس نے اپنے دونوں بازو ہوا میں لہراتے ہوئے کہا پاء جی! گُھٹ کے جپھی پائو ذرا سکون ملے۔ پھر نہ پوچھیں ہماری کیا کیفیت تھی۔ دونوں بھائیوں نے گھٹ کے جپھی پائی تے سمجھو مل گئی خدائی۔ جذبات کا بہتا سمندر ہماری آنکھوں میں موجزن تھا۔ بہت دیر تک ہماری کیفیت ناقابل بیان تھی۔ میں نے اپنے ساتھیوں سے رخصت لی اور ہم دونوں برلن کی گلیوں بازاروں میں پیدل آوارہ گردی کرنے نکل کھڑے ہوئے۔ دانیال کا کہنا ہے کہ کسی شہر یا ملک کا کلچر دیکھنا اور سمجھنا ہو تو اس کی گلیوں بازاروں میں آوارہ گردی کرو، مقامی لوگوں سے ملو، ان سے گفتگو کرو۔ دانیال کو جرمن زبان پر مکمل عبور حاصل ہے۔ وہ کہتا ہے مقامی لوگ مجھے جرمن ہی سمجھنے لگے ہیں۔ وہ بڑا با اعتماد، پر عزم،ہمت والا انسان ہے۔ اب دانیال میرا گائیڈ ہے۔ میرے پاس وقت بہت کم مگر ہماری یادیں، باتیں بہت زیادہ ہیں۔ وہ مجھے کم سے کم وقت میں برلن بارے زیادہ سے زیادہ معلومات فراہم کرنا اور مقامات دکھانا چاہتا ہے۔ وہ کہنے لگا عرفان بھائی! میںآپ کو جرمن قوم کی خاموش ترقی بارے چندحیران کن معلومات سے آگاہ کرتا ہوں۔ذرا رکئے ۔


(جاری ہے)

تازہ ترین