• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اصفہان ایران میں پیدا ہونے کی وجہ سے ،کردخاندان سے تعلق رکھنے والی اس خاتون کو لوگ نام کے علاوہ بیگم اصفہانی کے نام سے بھی جانتے اور پکارتے تھے۔23 مارچ1929ء کو پیدا ہونے والی اس خاتون پراس وقت اس کی ہم جولیاں رشک کرنے لگیں جب1971ء میں اس لیڈی کو خاتون اول کااعزازحاصل ہوا۔ ذوالفقار علی بھٹو کے اقتدار میں آنے کے بعد بیگم نصرت بھٹو اصفہانی کی اہمیت اور عزت میں بہت اضافہ ہوگیا لیکن یہ بات کسی کو نہیں معلوم تھی کہ اس خاتون کے لیے ایک درد ناک مستقبل اس کا انتظار کررہاہے۔1977 میں ذوالفقارعلی بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد شوہر پرجب قیدو بند کی مصیبتیں پہاڑ بن کرگر نے لگیں تواس خاتون نے ایک وفا شعار بیوی اور ایک پرخلوص ماں کا کردارادا کرنے میں کوئی کسر نہ اٹھا رکھی ایک طرف شوہرکی طرف بڑھتا ہوا پھانسی کا پھندہ اور دوسری طرف جوان ہوتی ہوئی اولاد کو سنبھالنا ایک مشکل مرحلہ تھا۔ جبکہ اپنی بکھری ہوئی سیاسی پارٹی امور پربھی نظر رکھنا، اسے قائم رکھنا، ابن الوقت قسم کسی لیڈر شپ سے پارٹی کو بچانا یہ سب کام بیگم نصرت بھٹو نے ایک مدبر خاتون کی طرح کئے۔بعدازاں خاوندکو پھانسی کی سزا کے بعد یہ کام اور بھی مشکل ہوگئے۔ ایک با صلاحیت لیڈر اور دنیائے سیاست کے ایک بڑے نام کومٹی کے سپرد ہونے کے بعد جوان بیٹا شاہنواز بھٹو بھی اپنے کمرے میں مردہ پایاگیا۔اس بہادرخاتون نے یہ دکھ بھی بڑی بہادری سے برداشت کیا اور پھر اس خاتون کی محنت پھل لائی اوراس کی بیٹی بے نظیربھٹو ایک طویل جدوجہد کے بعد وزیراعظم پاکستان بن گئی۔ایسا معلوم ہوتا تھا کہ اس خاتون کی محنت اور قربانی اب مز ید رنگ لا ئے گی لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اور دوسرا بیٹا میر مرتضیٰ بھٹو بھی ایک مبینہ پولیس مقابلے میں جاں بحق ہوگیا جس کی گھتی آج تک نہیں سلجھ سکی۔اب یہ خاتون اندر سے ٹوٹ پھوٹ کاشکار تھی۔ بیٹی کی بطور وزیراعظم حکومت ختم کردی گئی تھی۔ شوہر کے بعد دونوں بیٹے بھی قدرت نے واپس لے لیے تھے۔ سیا ست میں مضبوط کردار ادا کرنے والی یہ خاتون اندر سے ٹوٹ پھوٹ گئی تھی، اب یہ ایک چلتی پھرتی لاش تھی ،جس کو یہ بھی معلوم نہ ہوا کہ اس کی بیٹی بھی قتل کردی گئی ہے ۔اپنی زندگی کا بہترین حصہ جمہوریت اور مشکلات کے لیے دینے والی یہ خاتون اکتوبر2011ء کو جہان فانی سے رخصت ہوگئی۔ سیاست اور جمہوریت کی گزشتہ تیس چا لیس دہائیوں میں دوسری خاتون بے نظیر بھٹو تھی۔ جس نے ماں کی طرح بڑے دکھ اٹھائے باپ کی طرف سے ملنے والی لیڈر شپ کوالٹی کی وجہ سے سیاسی ریگزار میں بہت محنت کی ،جیلیں بھگتیں، خاوند کو جیل ہوئی تو بچوں کو بغل میں لے کر ایک بہترین ماں کی طرح بچوں کو ملانے جیلوں کے چکرکاٹتی رہیں، عدالتوں کے چکر کاٹتی رہیں ،ایک دن اگر ایک مقدمہ ایک شہر کی عدالت میں ہوتا تو اسی روز دوسرا مقدمہ کسی دوسرے شہر کی عدالت میں یا اگلے روز بھاگ دوڑ کرکے دوسرے شہر میں پہنچنا ہوتا ۔سیاسی پارٹی کو چلانے،بچوں کی پرورش اورشوہر کی قید اور اپنے خلاف مقدمات ان سارے معاملات کو اس بہادرخاتون نے بہت ہمت سے برداشت کیا اور ہر قسم کے طوفانوں کا مقابلہ کرتے ہوئے آگے بڑھتی رہیں۔ لیکن بدقسمت فیملی کی یہ بہترین خاتون بھی ایک گولی کا ایسا نشانہ بنی کہ آج تک نہ گولی چلانے والے ہاتھ تلاش ہو سکے اور نہ ہی ان ہاتھوں کے مالک کی پیٹھ کو تھپتپھانے وا لو ں کا چہرہ سا منے آ سکا۔ محترمہ کلثوم نواز ابھی چند روز پہلے اس دنیا سے ایک طویل بیماری کے بعد خالق حقیقی سے جا ملی ہیں۔ ان کی قربانیاں اورجدوجہد محترمہ نصرت بھٹو اور بے نظیربھٹو کے مقابلے میں کم ہی سہی لیکن یہ بھی جمہوری جدوجہد میں اپنا مقام رکھتی تھیں۔ تین مرتبہ خاتون اول کا اعزاز حاصل کرنے والی یہ خاتون بھی جب موت کی آغوش میں گئی تواس کے ارد گرد کا ماحول یا خاندانی حالات زیادہ اچھے نہ تھے۔ حکو مت جا چکی تھی ،شوہر اور بیٹی جیل کی سلاخوں کے پیچھے تھے اورکینسر کا موذی مرض جسم میں سرائیت کرچکا تھا۔موت تو سب کو ہی آنی ہے ہر کسی کا وقت اور عوامل مختلف ہوتے ہیں۔ لیکن اچھی بات یہ ہوتی ہے کہ جب آپ کو جاننے والے آپ کو اچھے الفاظ میں یاد کریں ۔محترمہ کلثوم نواز نے بھی مشکل وقت میں ایک بہترین اہلیہ، بہترین ماں اور جمہوریت کے لئے جدوجہد کرنے والی ایک بہترین لیڈر کاکردارادا کیا ہے۔ تین عورتیں ،تین کہانیاں ،بالکل مختلف ہیں لیکن مجھے جدوجہد ،قربانی اوراحترام کے حوالے سے یہ تینوں خواتین ایک ہی اور اعلیٰ درجے پر فا ئز نظر آتی ہیں۔

twitter:@am_nawazish

تازہ ترین