• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارلیمنٹ ڈائری:اجلاس کا اپوزیشن کے بڑے گروپ کے واک آوٹ سے آغاز

اسلام آباد (محمد صالح ظافر خصوصی تجزیہ نگار)پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے صدر مملکت کا خطاب آئینی تقاضا ہے جس کے بعد ہی پارلیمانی سال کی ابتدا ہوسکتی ہے پیر کو ڈاکٹر عارف علوی نے بطورصدر اس آئینی تقاضے کی تکمیل کی وہ جن متنازع حالات اور جن ہاتھوں سے صدر بنے اس بحث سے علی الرغم انہوں نے روایتی تقریر کی جو حکومت کی فراہم کردہ تھی پیرائے اور متن کے لحاظ سے خطاب میں اس با نکپن کا فقدان تھا جس کی ان سے توقع کی جارہی تھی وہ اپنا خطبہ قدرے دھیری رفتار میں بھی پڑھ سکتے تھے یوں محسوس ہورہا تھا کہ وہ خوفزدہ ہیں اور اس ذمہ داری سے جلد از جلد نجات حاصل کرنا چاہتے ہیں اس خطاب میں کوئی غیرمعمولی یا ایسا اعلان یقین دہانی یا مژدہ موجود نہیں تھا جسے بحث و تمحیص کا اہم موضوع قرار دیا جاسکے قومی اسمبلی کے اسپیکر کی بے تدبیری اور’’سادہ لوحی‘‘ کے باعث مشترکہ پارلیمانی اجلاس حزب اختلاف کے بڑے گروپ کے واک آوٹ سے شروع ہوا۔ پاکستان مسلم لیگ نون اورجمعیت العلمائے اسلام نے ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر ایوان سے باہر جانے کی راہ لی اس دوران پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور ان کی ہمنوا جماعتوں نے ایوان میں حاضر رہنے کو ترجیح دی تاکہ وہ اپنے ممدوحین کویقین دلا سکیں کہ ان کی موجودگی میں حزب اختلاف کا متحد ہونا ممکن نہیں ہے اور ان کی سرپرستی سے ہاتھ نہ کھینچا جائے۔ پاکستان مسلم لیگ نون کی قیادت نے باور کرا رکھا تھا کہ صدارتی خطبے میں حزب اختلاف خلل نہیں ڈالے گی اور کوئی ہنگامہ آرائی نہیں ہوگی۔ نکتہ اعتراض اٹھایا اور اس پر بات کرنا پارلیمانی ارکان کا اساسی حق ہوتا ہے سپیکر اسے منظور یا مسترد کرنے کا اختیار رکھتا ہے ارکان کی بات سنے بغیر انہیں خاموش کرادینا پارلیمانی روایات کے منافی ہے حزب اختلاف کا یہ غالب گروپ جولائی کے انتخابات میں دھاندلی کی نشاندہی اور اس کےلئے تحقیقاتی پارلیمانی کمیشن کے وعدے کی یاد دہانی کرانے کا خواہاں تھا اسپیکر اس سے ہراساں ہوگئے اور انہو ں نے عجلت میں ڈاکٹر علوی سے استدعا کردی کہ وہ اپنا خطاب شروع کریں اس طرح معترضین کی بات سنی ان سنی کردی گئی۔ محض ایک روز قبل کراچی میں وزیراعظم کو صدر مملکت ڈاکٹر علوی کے ساتھ’’ بے تکلفی‘‘ کا مظاہرہ کرتے ہوئے دیکھا اور سنا جاسکتا تھا انہوں نے یاد دلایا کہ بے چارہ ڈاکٹر علوی اپنے لئے رہائش کی خاطر جگہ ڈھونڈتا پھررہا ہے یہ لہجہ قطعی طورپر کسی سنجیدہ شخصیت کے شایان شان نہیں ہے پھر آپ نے اسے صدر مملکت بھی چن رکھا ہے یہ الگ بات ہے کہ انہیں چننے والوں کا اپنا چناو تنازعات کا شکار ہے پیر کو جب وہ پارلیمان سے خطاب کررہے تھے تو وزیراعظم کی توجہ کسی دوسری جانب منعطف تھی وہ دو ایک مرتبہ جمائی لینے اور بازوں کی تھکاوٹ دور کرنے کےلئے کسرتی انداز بھی لئے رہے صدارتی خطبہ جاری تھا اور ارکان باری باری وزیراعظم کی نشست پر آکر ان سے بات چیت اور سرگوشیاں کرتے رہے تحریک انصاف کو اب کسی نظم و ضبط کا پابند بننا چاہیے اور حفظ مراتب بھی اس کے کارکنوں، ارکان اوررہنماوں کے پیش نظر رہنا چاہیے۔ ایک طرف صدر مملکت کا خطاب جاری تھا جس میں عوام کے مسائل اور مشکلات کا رونا رویا جارہا تھا عین اسی وقت عوام کو یہ مژدہ سنایا جارہا تھا کہ جاڑے کی آمد سے قبل گیس کے نرخوں میں اضافہ کردیا گیا ہے جس سے پورا معاشی نظام زندگی متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا۔
تازہ ترین