• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

امریکا میں پاکستانی موقف سے قائل یہودی گروپ پر بھارتی اخبار معترض

کراچی (اسٹاف رپورٹر)ایسا لگتاہے کہ امریکا میں تعینات پاکستانی سفیرعلی جہانگیرصدیقی پاکستان کےامریکا کےساتھ تعلقات کو بہتربنانے کیلئے جو کوشِشیں کررہے ہیں بھارتی لوگ اس پرواقعی ناراض ہیں۔ حال ہی میں امریکا کے ایک یہودی گروپ کے چیئرمین نے قریبی دفاعی تعلقات اوراسلحہ کی فروخت پرپاکستانی موقف کی حمایت کی ہے اور انھوں نے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی قربانیوں کااعتراف بھی کیا ہے۔ ایسا علی جہانگیرصدیقی کی اس گروپ سےملاقات اور دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کی کامیابی کی مہم چلانے اور ان کے پاکستان کی قربانیوں کااعتراف کرنے کے مطالبے کےبعدہوا۔ بھارتی اخباراکانومک ٹائمز نے 4ستمبر2018 کوایک مضمون شائع کیااوردلچسپ بات اس کے شائع ہونےکاوقت ہےکہ امریکی وزیرِخارجہ مائیک پومپیواورچیئرمین جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل ڈنفورڈکےپاکستان دورےسے ایک دن قبل اورنئی دہلی جانے سےپہلےیہ شائع کیاگیا۔ اس کاعنوان ’’یہودی گروپ کےصدرپاکستان کادفاع کیوں کررہےہیں‘‘تھا، مضمون میں یہ لکھتےہوئےشدیدتنقیدکی گئی تھی، ’’جب اس (پاکستان)کاامریکی کانگریس یاپینٹاگون میں کوئی حقیقی خیرخواہ موجود نہیں ہے اور ان دِنوں حتٰی کہ اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ مکمل طورپراس کےجرائم صاف کرنےکی کوشش کررہاہے۔ ’’امریکی وزیرخارجہ پومپیوکی جانب سےوہ پیغام متوقع ہےجسےبھارتی اخبارنےیوں بیان کیاہے’’بھارت میں ایک دن قیام سےقبل پاکستان میں مختصردورے کےدوران پاکستان کوایک سخت پیغام‘‘ تاہم اسی دوران بھارتی اخبار نےتسلیم کیاکہ لابی کیلئےپاکستانی سفیرصدیقی نےامریکامیں اپنی مددکیلئےطاقتوریہودی گروپ کی حمایت حاصل کرلی ہے۔ لیکن سمجھ بوجھ رکھنے والے پاکستانیوں کو بھی اپنے موقف کی حمایت مشکل لگتی ہے، جوویش امیریکن کانگریس ( جے اے سی) کے صدر جیک روزن،‘‘اکانومک ٹائمز نےجےاےسی کو امریکی یہودیوں کی تنظیموں میں ایک کم اہم گروپ کے طورپر بیان کیااور پھر پاکستان کی حمایت کرنے پرروزن کونشانہ بنایا۔’’ اکانومک ٹائمز روزن کےاثرورسوخ کےبارے میں کہتاہے، ’’روزن گزشتہ تین امریکی صدور کواپنا دوست کہتے ہیں، جارج ڈبلیوبش انھیں ’روزی‘ کہہ کر بلایاکرتے تھے، باراک اوبامانےنیویارک میں واقع اپنے اپارٹمنٹ میں 20منٹ تک ان کےپوتےپوتیوں کےساتھ کھیلا تھا اور بل کلنٹن نےمہم کیلئےان کانجی طیارہ ادھار لیا تھا۔‘‘ بظاہر امریکی گروپ کی جانب سےدہشت گردی کے خلاف پاکستانی قربانیوں کی بڑھتی ہوئی حمایت کونقصان پہنچانےکیلئے مضمون میں کہاگیاہے،’’ایک رئیل اسٹیٹ ڈویلپر روزن امریکاوراسرائیل دونوں جگہ پر تعلقات رکھتے ہیں۔ وہ باقاعدگی سےاسرائیل کےدفاع، یہود مخالف دشمنی اورگورےنسل پرستوں کے خلاف ٹویئٹر پر بات کرتے ہیں۔‘‘ بھارتی اخبار نےلکھا، ’’لہٰذا عوام میں پاکستان کادفاع کرکےاوران کی اپنی حکومت کی جانب سے کئی سالوں کےدوران جمع کردہ شواہد کونظرانداز کرکے وہ کیاکررہےہیں؟ کیاوہ ایک تنظیم کے صدر کے طورپر اپنی پوزیشن کوایک پلیئرکےطورپراستعمال کررہے ہیں؟‘‘ بھارتی اخبارنے دعویٰ کیاہے کہ انٹرنیشنل پالیسی ڈائجسٹ کے ایک مضمون(پاکستان امریکی حمایت کا مستحق ہے، goo.gl/mW1bmM)میں ٹرمپ انتظامیہ کی پاکستان کے لیے پالیسی کوحال ہی میں روزن نے’’واضح طورپرمضحکہ خیز‘‘ کہاتھا۔ پاکستان کو دہشت گردی کاشکار قرار دیتے ہوئے روزن نےایک ارب ڈالر سے زائد امداد کو بند کرنے کو ’’افسوسناک اور امریکاکیلئےغیرنتیجہ خیز‘‘ قراردیا۔ انہوں نے وفاداری سے امریکامخالف پاکستان کے تحفظات کو پیش کیا: اکانومک ٹائمز لکھتا ہے، ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں 60ہزارسےزائدافراد کی قربانی دینے کے بعد کس طرح سے اسےتنہاکردیاگیا، معیشت کو120ارب ڈالر کانقصان بھی ہوا، کس طرح سے اس نے القاعدہ اور اسلامک اسٹیٹ (آئی ایس) کانیٹورک بے نقاب کیا اوربھی بہت کچھ کیا۔‘‘ بھارتی اخبار تنقید کرتاہے کہ بائی لائن کو نظرانداز کردیں، تو ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی فوج کے پبلک ریلشن کے ڈیپارٹمنٹ نے یہ مضمون لکھاہے۔ اکانومک ٹائمزامریکا میں تعینات ہمارے سفیر کونشانہ بناتے ہوئے لکھتاہے،’’وہ (روزن) امریکا میں پاکستانی سفیرعلی جہانگیر صدیقی کے ساتھ جولائی میں ہوئےایک ڈنرکاحوالہ دیتےہیں، جہاں کھانا کافی منتخب شدہ تھا یعنی شوربے میں ڈوباہوا، جہانگیر صدیقی کی تعریف کرتے ہوئے روزن 2018کی اس پہلی ٹویٹ میں پاکستان کو نشانہ بنانےپرصدرڈونلڈٹرمپ پر تنقید کرتے ہیں کہ ’’ہم افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کونشانہ بنائے گے۔‘‘ اکانومک ٹائمز مزید لکھتا ہے، ’’وہ اس پر افسوس کااظہار کرتے ہیں کہ پاکستانیوں کو تنہا محسوس کرناچاہیے، انکی قربانیاں رائیگاں چلی گئیں۔‘‘ علی جہانگیر صدیقی نے امریکا میں مئی 2018میں بطور سفیر عہدہ سنبھالاتھا۔ اس سے قبل انھوں نےوزیراعظم کے بطور اسپیشل اسسٹنٹ خدمات سرانجام دیں۔ روزن کس طرح پاکستان کی حمایت کررہے ہیں اسے پر تنقید کرتے ہوئے بھارتی اخبار مزید لکھتا ہے کہ 2005میں روزن اس وقت کےپاکستانی صدرجنرل پرویز مشرف کو امن کے پیامبرکےطورپر مشہور کررہے تھے اور یہودی رہنمائوں کے ساتھ ان کی ملاقات کو ’’تاریخی لمحہ‘‘ قرار دے رہے تھے۔ لیکن یہ روزن ہی ہیں جو یہاں زیادہ پیچیدہ ایکٹرہیں۔ ایسالگتاہے کہ ان کی تنظیم کے پاس جو کچھ بھی ہے وہ ٹرمپ انتظامیہ میں پاکستان کیلئےلابی کرنے کیلئے استعمال کررہے ہیں۔ بھارتی اخبار نے ورلڈ اسرائیل نیوز میں شائع ہونے والے ایک مضمون کابھی حوالہ دیاہے کہ روزن اپنی تنظیم کو پاکستان کیلئےلابی کرنے کیلئے ایک ’’کور‘‘کےطورپراستعمال کررہےتھے، پریس پر نظررکھنےوالی واشنگٹن کی ایک غیرمنافع بخش تنظیم میڈل ایسٹ میڈیاریسرچ انسٹیٹیوٹ کےصدرییگل کرمن اور ایک بھارتی نژاد برطانوی طفیل احمدجوایک سینئرفیلوہیں انھوں نے ورلڈ اسرائیل نیوز میں لکھا کہ عمران خان یہود مخالف ہیں اور روزن اور امیریکن جووئش کانگریس کو پاکستان کی حمایت نہیں کرنی چاہیئے۔ عمران خان ممکنہ طورپریہودی مخالف نہیں ہوسکتے کیونکہ انھوں نے جمائمہ گولڈ سمتھ سے شادی کی جو خود ایک یہودی ہیں۔ عمران خان نے واضح کیا تھا کہ زیادہ ترعالمی میڈیاکی ملکیت یہودیوں کے پاس ہے اور عمران خان کو یہود مخالف ثابت کرنے کے لیے میڈل ایسٹ میڈیا ریسرچ انسٹیٹیوٹ، اسکے صدر ییگل کرمن اور بھارتی نژاد برطانوی شخص طفیل احمد کیلئے کافی ہے۔ امریکی یہودیوں کی رائے پراثرانداز ہونےکیلئےایک تیسرے ملک کی جانب سےکیایہاں کوئی کوئی بری نیت کام کررہی ہے تاکہ وہ پاکستان سے خود کو الگ کرلیں؟ پیغام بالکل واضح ہے: اگرآپ یہودی ہیں اور آپ نے پاکستان کے موقف کو سنا تو آپ کو فوراً یہود مخالف قراردےدیاجائےگااور آپکو نشانہ بنایا جائےگا۔
تازہ ترین