• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ ایک عجیب اتفاق کہ کراچی، ممبئی کے مقابلے میں شمالی ہند سے وہ روابط استوار نہ کر سکا جس کا وہ مستحق تھا۔ اس کی وجہ ممبئی کی درجنوں ٹیکسٹائل ملوں نے اس کو پُرکشش شہر بنا دیا تھا جبکہ کراچی ایک تجارتی اور بندرگاہی شہر تھا جہاں سے مغربی ہندوستان کے مسلمان حج کے لئے جایا کرتے تھے۔ بیسویں صدی کے اوائل میں کراچی کی بولی اردو سندھی، بروہی، گجراتی، ملتانی، کاٹھیا واڑی، بلوچی زبانوں کا ملغوبہ تھی مگر اردو کا بول بالا تھا۔ قیام پاکستان سے قبل یہاں سے اردو کے متعدد روزنامے، ہفت روزہ اخبار اور ماہ نامے جرائد نکلتے تھے۔ (بلکہ سندھی اخبارات نے بھی تحریک پاکستان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا) سندھ مدرستہ الاسلام، خالق دینا ہال کی لائبریری، اردو پریس اور انجمن ترقی اردو کی مقامی شاخ قائم ہوگئی تھی، اردو کے مشاعرے ہوتے تھے اور اردو کی کانفرنسیں ہوتی تھیں۔ محمڈن ایجوکیشنل کانفرنس جس کی بنیاد سر سید نے رکھی تھی جو بعد میں آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کے نام سے موسوم ہوئی اس کا اکیسواں اجلاس مولانا الطاف حسین حالی کی صدارت میں 1907ء میں کراچی میں ہوا جس میں سندھ کے مسلمانوں کے تعلیمی مسائل زیربحث رہے۔
1921ء میں کراچی نے عالمی شہرت حاصل کی جب مولانا محمد علی جوہر نے خلافت کمیٹی سے ایک قرارداد منظورکرائی کہ برطانوی افواج میں مسلمانوں کی بھرتی خلاف شرع ہے ان کو بغاوت کا الزام لگا کر گرفتار کر لیا گیا اور ان کے مقدمے کے لئے کراچی کے خالق دینا ہال میں عدالت لگی۔ انگریز جج کی عدالت میں عدم پیروی کی وجہ سے ان کو سزا ہوئی اور کراچی جیل میں ان کو مقید کر دیا گیا۔اس وقت یہ شعر مسلمان بچے بچے کی زبان پر تھا جان بیٹا خلافت پر دے دو، بولیں اماں محمد علی کی۔ 1937ء میں سندھ پراونشل اردو کانفرنس کراچی میں ہوئی مولوی عبدالحق نے صدارت کی ان کے ساتھ چوہدری خلیق الزمان، پنڈت برج موہن دتاتریہ کیفی، پنڈت برج موہن لال اور عبدالرحمن صدیقی نے شرکت کی۔ دوسری کانفرنس 1944ء میں ہوئی جس میں مولوی صاحب نے اختتامی تقریر کی اور سندھ کے مشہور دانشور آئی آئی قاضی نے اپنا تفصیلی مقالہ پیش کیا۔ تحریک پاکستان کے سلسلے میں قائداعظم کی ہدایت پر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کے طلباء نے سندھ کے دیہات کے دورے کئے جن کو بعض وقت بھنے چنوں پر گزارہ کرنا پڑا۔ اس میں میرے بہنوئی پروفیسر مسعود الحسن بطور طالب علم شریک تھے۔ 1954ء میں کراچی آرٹس کونسل آف پاکستان کا قیام عمل میں آیا جس کا مقصد آرٹس (فنون لطیفہ) کو فروغ دینا ہے۔ فنون لطیفہ ایک کثیرالفونون اصطلاح ہے اس میں نقاشی، مصوری، مجسمہ سازی، فن تعمیر، موسیقی، رقص، اداکاری، فلم سازی، خطاطی، ادب، شاعری، تاریخ، ثقافت، صحافت سب ہی کچھ سمٹ آتا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ آرٹس کونسل کی سرگرمیوں کا دائرہ بہت وسیع ہونا چاہئے تھا مگر ابتدائی دور میں اس کی سرگرمیاں زیادہ تر لیکچروں اور کتابوں کی رونمائی کی تقاریب تک محدود رہیں۔ اس وقت اس کا صدر بہ اعتبار عہدہ کراچی کا کمشنر ہوتا تھا البتہ نائب صدر خازن اور گورننگ باڈی کے ارکان منتخب ہوا کرتے تھے۔ ابتدا میں اس کا سالانہ چندہ 25روپے تھا جو اب 300روپے سال کر دیا گیا ہے۔ چار سال قبل عہدہ صدارت بھی انتخابی کر دیا گیا اور اس طرح سرکاری صدر جو بالعموم حلف برداری کی تقریب میں شرکت کیا کرتا تھا اب ہر جلسے اور تقریب میں شرکت کرنے لگا۔
راقم کو آرٹس کونسل کے جلسے میں شرکت کا پہلا موقع اس وقت ملا (پہلے محض سامع کی حیثیت تھی) جب مئی 1973ء میں صہبا لکھنوی کی کتاب اقبال اور بھوپال کے پہلے ایڈیشن کی تقریب رونمائی ہوئی جس کی صدارت شہزادی عابدہ سلطان نے کی۔ راقم نے ابن انشا، مجنوں گورکھپوری، انجم اعظمی اور پروفیسر سحر انصاری کی معیت میں اپنا مضمون پڑھا، بعد ازاں راقم کونسل کا ممبر بن گیا اور متعدد جلسوں اور تقریبوں میں بحیثیت صدر، مہمان خصوصی اور مقرر حصہ لیا۔ اب ایک سال سے ٹرانسپورٹ کی مشکل اور عمر کے تقاضے کی ہر مضمون نگاری، کالم نگاری اور کتابوں پر ریویو کی خدمات گھر بیٹھے انجام دے رہا ہوں اگر معبود حقیقی کا کرم رہا تو 16جنوری2013ء کو سو سال پورے کر لوں گا۔یہ بات بلاکسی طعن و تشنیع یا کسی کی عزت نفس پر حملہ کئے بغیر بلاتردد کہنے کی جرأت کر رہا ہوں کہ آرٹس کونسل نے گزشتہ پانچ سال میں ہر شعبے میں اپنی سرگرمیوں میں معیاری اضافہ کر کے شہر کے ادبی اور ثقافتی حلقوں میں نمایاں مقام حاصل کر لیا ہے۔ سال کا کوئی دن بھی ایسا نہیں ہوتا جب یہاں کسی کتاب کی رونمائی، کسی صاحب کمال کے اعتراف کمال کی محفل مشاعرہ، قوالی، محفل موسیقی، ڈرامہ، بزرگوں کے یوم، تعزیتی اجلاس، بیرون ملک سے آنے والوں کے لیکچرز، بچوں اور خواتین کے پروگرام، مصوری، خطاطی اور تقاریر کی نمائش وغیرہ منعقد نہ ہوتیں ہوں۔
کونسل کا تازہ کارنامہ اردو کی عالمی کانفرنسوں کا انعقاد ہے۔ چار کانفرنس ہو چکی ہیں پانچویں دسمبر کے پہلے ہفتے میں ہوگی ان میں بیرونی ملکوں سے صاحب دانش حضرات تشریف لا کر اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کرتے ہیں۔ مشاعرہ اور محفل موسیقی اس کو جشن کا سماں بنا دیتے ہیں۔ اس سال کی کانفرنس کی اہمیت یوں بڑھ جاتی ہے کہ پاکستان میں اردو کے ساتھ سندھی، پنجابی، سرائیکی، پشتو، براہفوہی، شنا اور بلتی زبانوں کو بھی قومی قرار دینے کا مسئلہ اٹھ کھڑا ہوا ہے۔ دوسری طرف مقتدرہ قومی زبان (1979ء) جس نے 33برس میں قابل قدر کام کیا ہے اس کا نام بدل کر محکمہ فروغ قومی زبان (نیشنل لینگویج پروموشن ڈپارٹمنٹ) رکھ دیا ہے اور اس کی خود مختارانہ حیثیت کو ختم کر کے اسے پاکستان کی وزارت قومی ورثہ و یکجہتی کا منسلکہ محکمہ بنا دیاگیا ہے۔ عالمی کانفرنس اس پر احتجاج کرنے اور اس نئے حکم کو واپس لینے کا مطالبہ کرنا ہوگا۔آرٹس کونسل کی کامیابیوں میں موجودہ صدر محمد احمد شاہ اور ان کی کارگزار ٹیم کا بڑا ہاتھ ہے۔ اس سلسلے میں گورنر سندھ ڈاکٹر عشرت العباد کی آرٹس کونسل اور اس کے معاملات میں غیرمعمولی دلچسپی اور انہماک اور تعاون کو بڑا دخل ہے انہی کی کوششوں سے حکومت سندھ نے پہلے بھی مالی امداد میں اضافہ کیا اور اب چھ منزلہ نئی عمارت کے لئے 12کروڑ روپے کی خطیر رقم کی منظوری دلوائی اور موصوف ہی نے 15/اکتوبر کو اس عمارت کا سنگ بنیاد رکھا۔
آخر میں گزارش ہے کہ کونسل کو اپنے ممبران کی ڈائریکٹری تیار کرنا چاہئے جس میں ان کے ادبی و فنی کارناموں کا مختصر ذکر ہو تاکہ ان جعلی طالع آزماؤں کی قلعی کھل جائے جو حقیقی ممبروں کی حق تلفی کا باعث ہو رہے ہیں، دوسرے کانفرنسوں اور جلسوں میں کونسل کے کارڈ کی موجودگی کو لازمی قرار دیا جائے۔
آرٹس کونسل جیسے اداروں کی حسن کارکردگی ملکی معیشت کی بحالی کے مترادف ہے۔
تازہ ترین