• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے تین ادارے عوام میں ترقی اور تبدیلی کے پس منظر میں اپنی شناخت کے لئے ایک سوال سابنے ہوئے ہیں۔ ان اداروں کی ہمارے سماج میں حیثیت اور اہمیت ہے۔ یہ ایک مربوط نظام کے اہم حصہ دار ہیں مگر یہ ادارے ایک دوسرے پر اعتبار کرتے نظر نہیں آتے۔ ان میں پہلا ادارہ ہماری قومی اسمبلی اور سینٹ ہے جہاں عوام کی نمائندگی کے دعویدار ملک کے نظم و نسق کے معاملات کے نگران ہیں۔ ملکی قوانین، نظام اور عوام کے بہبود کے تمام نقشے اور منصوبے ان لوگوں کے مرہون منت ہوتے ہیں مگر ہماری قومی اسمبلی میں ہمارے ترجمان سیاسی جماعتوں کے مفادات کی نگرانی میں ہی مصروف رہتے ہیں۔
ان میں سیاسی بلوغت نظر نہیں آتی۔ عدم برداشت کا معاملہ ان کے لئے نازک آبگینہ ہوتا ہے ان لوگوں کا سب سے بڑا مسئلہ ان کا استحقاق ہوتاہے۔ ممبران اسمبلی مختلف جزیروں میں بٹی ہوئی مقننہ ہے۔
ہمارے سماج میں درگزر، برداشت، تلافی، جیسی اصلاحات بے مقصد اور قابل اعتبار نہیں۔ میرے ادبی مرشد کا فرمان ہے۔ ”لفظوں کے دانت نہیں ہوتے مگر یہ کاٹ لیتے ہیں اور اگر یہ کاٹ لیں ان کا زخم کبھی نہیں بھرتا“ ایسے کتنے ہی زخم لوگوں کویاد ہیں اور ان کی کسک معاشرے میں محسوس ہوتی رہتی ہے۔ میں ذاتی طور پر صدر پاکستان جناب زرداری کا مداح ہوں ان کے ہاں قول و فعل کا تضاد نہیں تھا۔
صدر پاکستان کی حیثیت میں وہ اب نظام کے نگران اور کمان دار ہیں۔ چند سال پہلے ان کے منہ سے ایک ایسی بات نکل گئی جس کا اثر اب تک ہماری سیاست پر ہے۔ اگرچہ ان کی بات ایک الزام تھا اور ایک الزام ہے۔ بات اس وقت بن سکتی ہے جب آپ الزام واپس لے لیں۔ مگر ہمارے ہاں ایسا ظرف دیکھنے میں کم ہی آتا ہے۔ ہمارے ہاں الزام لگانے کے لئے دعوے اور ثبوت کی ضرورت نہیں ہوتی۔ ہمارے الزام ہماری خواہشات کے مرہون منت ہوتے ہیں بقول شاعر:
لو ان کا چہرہ لال ہوا
پھر اپنا استحصال ہوا
ہمارے سماج کا دوسرا اہم ادارہ ہمارے ذرائع ابلاغ ہیں اس میں اخبارات، ٹیلی ویژن چینل اور سوشل میڈیا کے ذرائع ہیں۔ بظاہر ان کے پاس اختیارات کا انت نہیں وہ کسی بھی جگہ کوئی بھی بات سن سکتے ہیں اور پھر اس کے بیان کا حق وہ اپنی مرضی اور منشا سے کرتے ہیں۔ ان کی اس روش سے سماج کے دوسرے اہم اداروں کے حقوق متاثر ہوتے ہیں بلکہ عام آدمی تک خبر کے سفر کی آزادی برقرار نہیں رہتی ہے۔ ہمارے ہاں یہ بات بنیادی ہے کہ ”خبر کی اہمیت ہوتی ہے مگر کوئی اس پر غور نہیں کرتا کہ کون سی خبر کتنی اہمیت کی حامل ہوسکتی ہے۔ معلومات کو آپ خبر نہیں بناسکتے مگر ہمارے ذرائع ابلاغ ابھی اتنے بالغ نہیں ہوئے کہ وہ عوام اور سماج کے شعور کے لئے خبر کی حیثیت اور اہمیت کو علم اور تجربہ کی روشنی میں اجاگر کریں۔ پرواز کی تاخیر ایک مقامی خبر اور اخبار کی خالی جگہ پر کرنے کے لئے تو لگائی جاسکتی ہے۔
بس اس سے زیادہ اہمیت نہیں دی جاسکتی۔ اسی طرح اخبار میں مضامین اور کالم جو معلومات فراہم کرتے ہیں ان سے سماج میں سوچ اور فکر آگاہی بڑھتی ہے مگر ہمارے ہاں لکھنے والے خواہشات کے انبار کے لفظوں کا روپ دے کر خوب کھیلتے نظر آتے ہیں۔ ان میں ذاتی نظریات کا پرچار ، خوشامد کی بھرمار، الزامات کی یلغار اور میں کی تکرار ہوتی ہے اور کچھ ایسا ہی حال آج کل کے ٹاک شوز میں نظر آتا ہے۔ بھان متی کا کنبہ ایک دوسرے سے لڑتا۔ بدمزاج واعظ کی طرح بے معنی نان سٹاپ گفتگو کے دوران میزبان کی بے بسی قابل رحم ہوتی ہے پروگرام کے فوراً بعد فریقین ایک دم اتنے ٹھنڈے نظر آتے ہیں کہ میزبان ایک اور پروگرام کے لئے تیار ہو جاتا ہے مگر ان پروگراموں سے ذرائع ابلاغ قابل اعتماد اور قابل اعتبار نہیں ہوتے۔
ہمارے ہاں کا تیسرا اہم ادارہ نوکر شاہی ہے۔ جو آئین اور قومی اسمبلی کے فرمودات اور ذرائع ابلاغ کی معلومات کے تناظر میں ملکی نظام کو ترتیب و ترکیب سے چلاتی ہے اس ترتیب کا بڑا مقصد عوام کی خدمت اور ان کے لئے معاشرے میں حقوق کی نگرانی مقصود ہوتاہے۔ بہت سال پہلے آزادی کے وقت فرنگی کے زمانہ میں نوکرشاہی ہی حرف کل ہوتی تھی۔ اس کی مشاورت اور تجاویز پر قاعدے اور قانون بنتے تھے مگر بعد میں جمہوریت نے سول سوسائٹی کو سول سرونٹ دیئے اور سول سوسائٹی کو اختیار دیا وہ سول سرونٹ نظام پر نظر رکھیں۔ سول سرونٹس کو اختیار دیا کہ وہ ملکی نظام کے اہم کل پرزے کے طور پر ملکی نظام کو عوام کے لئے پرامن اور بامقصد بنائے۔ فرنگی کے زمانہ میں نوکر شاہی حرف کل ہوتی تھی مگر آزادی کے بعد وہ نوکر شاہی سے بادشاہی اور سکہ شاہی میں تبدیل ہوگئی۔ ابھی قائداعظم حیات تھے، نوکر شاہی نے پرپرزے نکالنے شروع کر دیئے، پاکستان میں نوکر شاہی کے امام گورنر جنرل محمد علی تھے۔
آزادی کے بعد ابلاغ کے ادارے، عدلیہ کا نظام، فوج کی جماعت اپنی اپنی تعمیر نو میں مشغول تھے۔ ایسے میں نوکر شاہی کو من مانی کرنے کا بھرپور موقع ملا۔ ملک کے تمام وسائل پر ان کا اختیار تھا۔ سیاسی لوگ آزادی کی جنگ کے بعد سست رفتار ہوگئے تھے اور نوکر شاہی پر اندھا اعتماد ان کو لے ڈوبا۔ نوکر شاہی نے اصول، قائدے، قانون کو اپنی من مانی اور وجدان کے ذریعے چلایا۔ حرف کل کے فلسفہ نے مشاورت اور فکر کو نظرانداز کیا پھر آزادی کے بعد تعمیر نو کے لئے کوئی منصوبہ نہ تھا۔ ان کا وہ وطیرہ ایسا تھا کہ فوج کو موقع دیا گیا وہ ریاست کو چلائے۔ عوامی رائے کو نظرانداز کیا گیا۔
پہلے پاکستان ٹوٹا، پھر جو پاکستان بچا وہ بھی ماضی کی روایت اور نوکر شاہی کی سازشوں کا شکار رہا۔ اب کچھ عرصہ سے جمہوریت دھیرے دھیرے سانس تو لے رہی ہے مگر صحت مند اور پرجوش نہیں۔ نوکر شاہی کا کردار بدل گیا مگر سوچ نہیں بدل سکی۔ وہ سیاستدانوں کو استعمال کرتی ہے۔عوام کو نظر انداز کرتی ہے۔ تقریباً پچیس سے تیس لاکھ سرکاری ملازم ملک کا نظام چلا رہے ہیں مگر عوام مطمئن نہیں۔ اب وقت ہے نوکر شاہی کے اختیارات کو عوام کے ساتھ شریک کیا جائے۔ نوکر شاہی کے کردار کا ذرائع ابلاغ اور اسمبلی تعین کرے۔
تازہ ترین