• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

لیبر کا غیرمولود بچہ کی صنف معلوم کرنے کیلئے ٹیسٹس پر پابندی کا مطالبہ

لندن ( نیوز ڈیسک ) لیبر نے مطالبہ کیا ہے خون کے ابتدائی ٹیسٹس کے بعد والدین کو غیرمولود بچہ کی صنف بتانے پر پابندی عائد کی جائے، ان خدشات کا اظہار کیا گیا ہے کہ اس طرح لڑکیاں ہونے کی صورت میں حمل ساقط کرائے جا تے ہیں۔واضح رہے کہ این ایچ ایس کی جانب سے جنیاتی صورت حال مثلاً ڈائون سینڈروم جاننے کیلئے ’’ نان انویسیو پری نیٹل ٹیسٹ ‘‘ ( این آئی پی ٹی)  کرائے جاتے ہیں مگر لوگ نجی طور پر ادائیگی کر کے بچہ کی صنف جاننے کیلئے ٹیسٹ کرا لیتے ہیں۔لیبر رکن پارلیمنٹ ناز شاہ نے کہا ہے کہ لوگوں کیلئے یہ بات اخلاقی طور پر غلط ہے کہ وہ ٹیسٹ کے نتائج کی بنیاد پر حمل ساقط کرا دیں۔محکمہ صحت نے کہا ہے کہ وہ شواہد کا مستقل طور پر جائزہ لیتا رہے گا۔وکٹوریہ ڈربی شائر پروگرام کیے تحت کی جانے والی تحقیقات سے پتہ چلا ہے کہ ہزاروں برطانوی خواتین ایک آن لائن فورم پر غیرمولود بچہ کی صنف جاننے کیلئے این آئی پی ٹی کرانے کیلئے بحث کرتی پائی گئی ہیں۔محترمہ شاہ جو کہ خواتین اور مساوات کیلئے شیڈو وزیر ہیں، انہوں نے کہا کہ جنوبی ایشیائی کمیونٹی جیسی متعدد کمیونٹیز میں لڑکوں کو ترجیح دینے کی ثقافتی روایات ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے نتیجے میں خواتین پر سخت دبائو ہوتا ہے کہ وہ فیملی ارکان کی توقعات کے مطابق جینے کیلئے این آئی پی ٹی جیسے طریقے اختیار کریں۔ این آئی پی ٹی میں حاملہ کے خون میں گردش کرنے والےغیر مولود کا ڈی این اے کیا جاتا ہے تا کہ ممکنہ جنیاتی صورت حال مثلاً پیدائش پر دماغی خلل کے خدشات کا جائزہ لیا جاسکے۔اس ٹیسٹ کے ذریعے صنف کا علم بھی ہو سکتاہے ، جو کہ ڈاکٹر اگلے ماہ سے انگلینڈ بھر میں پابندی کے بعد والدین سے شیئر نہیں کر سکیں گے۔ نجی کلینک 150سے 200پونڈز کے عوض یہ ٹیسٹ کر کے والدین کو غیرمولود کی صنف بتا دیتے ہیں۔ بعض لیباریٹری بذریعہ ڈاک خون کا صرف ایک قطرہ مانگتی ہیں جو کچھ دن میں ریزلٹ بتا دیتی ہیں۔ جینا انٹرنیشنل آرگنائزیشن کی رانی بلکھو کا کہنا ہے کہ بہت سی خواتین کو دوسری اور تیسری بار لڑکی پیدا ہونے پر تشدد یا حمل ساقط کرانے پر مجبور کیا جاتا ہے۔
تازہ ترین