• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بااختیار ہی ذمہ دار ہیں … تنقید تو سننا ہوگی

کھلا تضاد … آصف محمود براہٹلوی
یہ بات عیاں ہے کہ تنقید ان ہی لوگوں پر کی جاتی ہے جن پر کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیںیاجو لوگ بااختیار ہوتے ہیں، حکومت و اپوزیشن میں ہدف تنقید حکومت ہی ٹھہرے گی، کیونکہ عوام نے انہیں حکومت کا حق دیا ہے۔ پاکستان میں پی ٹی آئی کی حکومت وزیراعظم عمران خان کی قیادت میں قائم ہوئی، وہ باتیں جن پر خود عمران خان حزب اختلاف میں رہتے ہوئے تنقید کرتے تھے اب خود تنقید کی زد میں ہیں یاد رہے کہ حکومت والوں کو ایک ایک لفظ سوچ سمجھ کر بولنا ہوتا ہے ذرا سی کوتاہی پر حکومت کے لئے پانے کے لیے کچھ نہیں، کھونے کے لیے بہت کچھ ہوتا ہے کچھ چیزیں بڑی واضح ہوتی ہیں۔ آپ قوم سے وعدے وہی کرو جو نبھاسکو۔ اب عمران خان کی اپنی پارٹی کے لوگ جس طرح دھرنے میں اپنے قائد کو سنتے رہے۔ بالخصوص سابق وزیراعظم میاں نوازشریف اور آصف علی زرداری کے خلاف ایک پوری مہم چل رہی تھی اب اگر ان کی توجہ ان مسائل پر مرکوزکرائی جائے تو برا مان جاتے ہیں۔ جب صحافیوں اور دیگر نے تنقید برائے اصلاح کی تو وہ تحریک انصاف کے سوشل میڈیا ونگ کی زد میں آگئے۔میں ذاتی تنقید کے حق میں نہیں ہوں لیکن اصلاحی تنقید کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا ہوگا۔ حکومت کی تبدیلی تو ہوگئی، اب بااختیار لوگوں کواپنے رویوں میں بھی تبدیلی لانا ہوگی۔ تین، چار ہفتے کسی حکومت کے لئے کوئی وقت نہیں ہوتا۔ حکومت کو پانچ سال کا مینڈیٹ ملا ہےلیکن چند وزراء کرام کے رویوں نے تو لگتا ہے بھانڈا ہی پھوڑ دیا۔ راولپنڈی سے سینئر ترین پارلیمنٹرین اور وفاقی وزیر کی دو، تین باتیں جارہانہ رویوں والی سامنے آئیں۔ اگر وہ اپوزیشن میں ہوتے تو نہ جانے ایسے رویوں کو کس طرح بیان کرتے۔ ایسے ہی55روپے فی کلو میٹر ہیلی کاپٹر والی بات، وزیراعظم ہائوس، ہیلی کاپٹر ، پروٹوکول کی گاڑیاں وغیرہ سیکورٹی کی بنا پر اور ملک کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے کرنا پڑتا ہے۔ بیرون ممالک سے وفود اور ان کے حکومتی نمائندوں کی آمد، میٹنگز وغیرہ، وزیراعظم ہائوس کو ان تمام چیزوں کو مدنظر رکھ کر بنایا گیا ہے۔ یہ وقت کی ضرورت ہے، ہاں کوشش کریں کہ غیر ضروری اخراجات میں کمی ہو، لوگ دیکھیں گے اور محسوس کریں گے کہ سابق ادوار کی شاہ خرچیاں موجودہ دور سے زیادہ تھیں، سب سے بڑھ کر کہ ہمیں اپنے اداروں پر اعتماد کرنا ہوگا اگر کوئی کمی بیشی ہے تو اسے دور کرکے اداروں کے سربراہوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلائیں اور نظام حکومت کو مضبوط بنائیں، مگر یہاں سب مختلف ہے۔ ہر محکمے پر ایک ایکشن کمیٹی یا ٹاسک فورس بنانے کا عندیہ دیا جارہا ہے۔ اس سے موجودہ محکموں کے اندر عدم اعتماد کا احساس بھی ابھر کر سامنے آئے گا اور پاکستان کے عوام کا اعتماد جو اداروں سے پہلے ہی اٹھ چکا ہے مزید کمزور ہوگا۔ چیف جسٹس آف پاکستان سپریم کورٹ انتہائی محترم شخصیت ہیں اور پورے ملک میں عدلیہ کا مضبوط نظام قائم ہے۔ چھوٹی عدالتوں سے لے کر سپریم کورٹ تک ورکنگ نظام ہے۔ انتظامیہ کا بھی انہیں مکمل تعاون حاصل ہے، تو کیا وجہ کہ سپریم کورٹ کو سوموٹو ایکشن لینا پڑتا ہے یا چھاپہ مارنا پڑتا ہے۔ جہاں کہیں بھی خرابی دیکھیں اپنی ماتحت عدالتوں سے یا انتظامیہ کے ذمہ داران سے بازپرس کریں اور رپورٹ مانگیں تاکہ انہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو اور کوتاہیوں پر پشیمانی ہو، ندامت ہو۔ اس طرح اداروں پر عوام کا اعتماد بڑھے گا۔ جب قانون توڑنے پر جرمانہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسے ہی جب تک پورا نظام کام نہیں کرے گا ارباب اختیار کو تنقید سننا پڑے گی۔
تازہ ترین