• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف کی وفاقی حکومت نے معیشت کی بحالی کے لئے بعض ناگزیر فیصلے کرنا شروع کر دیئے ہیں اور منی بجٹ میں شامل کچھ سخت اقدامات سے قطع نظر گیس کی قیمتوں میں غریبوں کے لئے 10 سے 20فیصد اور امیروں کے لئے143 فیصد اضافہ کر دیا ہے نئی قیمتوں کا اطلاق اکتوبر سے ہو گا۔ کوشش کی گئی ہےکہ غریب صارفین زیادہ متاثر نہ ہوں جو ایک خوش آئند اقدام ہے اس مقصد کے لئے قیمتوں میں اضافے کا زیادہ بوجھ گھریلو صارفین سے صنعتی تجارتی بجلی، کھاد، سیمنٹ اور سی این جی سیکٹر پر منتقل کردیا گیا ہے۔ پیر کو کابینہ کی اقتصادی رابطہ کمیٹی کے اجلاس کے بعد وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری اور وزیر پیٹرولیم غلام سرور خان نے صحافیوں کو جو تفصیلات بتائیں ان کے مطابق اس سے قبل صارفین کے لئے قیمتوں کے تین سلیب تھے جو بڑھا کر سات کر دیئے گئے ہیں پہلے سلیب کے صارفین کو اب 23روپے جبکہ آخری سلیب والوں کو تقریباً 21ہزار روپے ماہانہ زیادہ ادا کرنا پڑیں گے۔ زیادہ قیمت پر خریدی جانے والی گیس کم قیمت پر فروخت کی جار ہی تھی جس سے گیس کمپنیوں سوئی ناردرن اور سوئی سدرن 152ارب روپے کے خسارے کا شکار تھیں مالی ماہرین کے مطابق اب انہیں 96ارب روپے اضافی مل جائیں گے جن سے ان کا خسارہ کم ہو جائے گا۔ تاہم خسارہ مکمل طور پر ختم کرنے کے لئے اگلے مرحلے میں گیس کے نرخ مزید بڑھائے جانے کا امکان موجود ہے۔ ایل پی جی سلنڈر کی قیمت میں دو سو روپے کمی کر دی گئی اور ڈیوٹی اور ٹیکس ختم کر کے دس فیصد جی ایس ٹی لگا دیا گیا ہے۔ برآمدی صنعتوں کے لئے گیس کی قیمت میں اضافہ نہیں کیا گیا جس سے برآمدات میں اضافہ ہو گا اور تجارتی خسارہ کم کرنے میں مدد ملے گی۔ وزرا نے بتایا کہ گیس کی قیمتوں میں اضافے سے ٹیکسٹائل کی صنعت بحال ہو گی جس کے نتیجے میں بے روزگار ہونے والے5لاکھ مزدوروں کو روزگار دوبارہ مل جائے گا۔ بجلی کے شعبے کو جن نرخوں پر گیس فراہم ہو گی اسے صارفین پر منتقل نہیں کیا جائے گا اور بجلی کے نرخوں میں بھی اضافہ نہیں کیا جائے گا۔ سیمنٹ اورکھاد کے کارخانوں کے لئے گیس کے نرخوں میں بالترتیب 30اور 40فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔ سی این جی درآمد کرکے اسی قیمت پر درآمدی صنعتوں کو فراہم کی جائے گی۔ اس سے حکومت کو اربوں روپے کی سبسڈی دینا پڑے گی ۔ پنجاب کا صارف اس سے قبل مہنگی گیس خرید رہا تھا جبکہ سندھ اور بلوچستان کو کم قیمت پر گیس دی جا رہی تھی یہ تفریق ختم کردی گئی ہے حکومت نے گیس کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ ایسے وقت میں کیا ہے جب اسے قائم ہوئے صرف ایک ماہ گزرا ہے اور عوام نے اس سے آسانیاں فراہم کرنے کی غیر معمولی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں لیکن گیس کی قیمتوں میں اضافے سے ان اشیا کے نرخ جن کی تیاری میں گیس استعمال ہوتی ہے خصوصاً سیمنٹ اور کھاد کی قیمتیں بڑھ سکتی ہیں جس سے عام صارفین بھی متاثر ہوں گے۔ ایل پی جی سلنڈر پر ڈیوٹی اورٹیکس ختم کر کے اس کی قیمت میں دو سو روپے کا ریلیف تو دیا گیا ہے مگرا س پر جنرل سیلز ٹیکس لگا دیا گیا ہے جس سے حکومت کے خزانے میں 16ارب روپے جمع ہوں گے مگر آگے چل کر ڈیلروں کو سلنڈر کی قیمتوں میں اضافے کا جواز مل جائے گا جسے حکومتی سطح پر کنٹرول کرنا ہو گا ورنہ اس کا بوجھ صارفین پرپڑے گا منی بجٹ میں لگائے جانے والے اربوں روپے کے ٹیکسوں کے نتائج پر غور کیا جائے تو ہزاروں نہیں تو سیکڑوں اشیا مہنگی ہو جائیں گی اس میں کوئی شبہ نہیں کہ حکومت کو ورثے میں کھربوں روپے کے غیر ملکی قرضے ملے ہیں جنہیں ادا کرنے کے علاوہ اسے آبی ذخائر اور دوسرے انتہائی ضروری اقتصادی منصوبے مکمل کرنے ہیں مگر عوام اس سے زندگی کی سہولتوں کی آس لگائے بیٹھے ہیں جو نہ ملنے اور مہنگائی کی چکی میں پسنے کی وجہ سے ملک میں سیاسی بے چینی پھیلے گی۔ حکومت کو چاہیئے کہ معیشت کی بحالی کے لئے اقدامات ضرور کرے مگر اپنے فیصلوں کے اس پہلو کو بھی مدنظر رکھے اور مہنگائی اور بے روزگاری سے دو چار عوام کو ضروری سہولتیں فراہم کرے۔

تازہ ترین