• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حبیب جالب نے پیپلز پارٹی کی حکومت میں کہا تھا ’’دن پھر ے ہیں فقط وزیروں کے‘‘۔اور ہر دورمیں یہی کچھ ہوا ہے۔پچھلے تیس سالوں میں جتنے لوگ بھی وزیر بنے ہیں (چند ایک کو چھوڑ کر)سب کی مالی حیثیت حیرت انگیز طور پرمستحکم ہوئی ہے۔موٹرسائیکلوں پر پھرنے والے جہازوں کے مالک بن بیٹھےہیں۔جس گھر کے آنگن میں بھی وزارت کی بہار آئی ۔اُس کا رنگ و روپ ہمیشہ کےلئے بدل گیا۔پہلی بار کوئی ایسی حکومت آئی ہے کہ وزیر پریشان دکھائی دیتے ہیں ۔ایک ایک قدم سوچ سمجھ کر اٹھا رہے ہیں ۔دن میں چودہ چود ہ گھنٹے کام کررہے ہیں ۔ہر وزیر اپنے محکمے کےچھو ٹے سے چھوٹے مسئلے کو پوری گہرائی کے ساتھ دیکھ رہا ہے اور اُس کے حل کےلئے کسی دروازے پر بھی دستک دینے میں عار نہیں سمجھ رہا۔ حکومت کو آئے ہوئے ابھی صرف بیس ورکنگ دن گزرے ہیں مگر لگ رہا ہے جیسے مہینے گزر گئےہوں۔ پچھلے دو ہفتوں میں وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری سے جگہ جگہ ملاقاتیں ہوتی رہیں ۔پنجاب کےصوبائی وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان سے بھی مختلف جگہوں پر کئی بار ملاقات ہوئی ۔شاید یہ دونوں چونکہ اطلاعات کے وزیر ہیں اس لئے بہت زیادہ متحرک ہیں ۔دومرتبہ ڈپٹی سپیکر قاسم سوری سے بھی ملاقات ہوئی ہے ۔وہ بھی خاصی متحرک شخصیت ہیں ،کچھ کرنا چاہتے ہیں ۔پنجاب کےوزیر جنگلات سبطین خان بھی پچھلے ہفتے میرے پاس آئے تھے ۔اُن سے پنجاب میں جنگلات کی ترویج کے متعلق دو اڑھائی گھنٹے گفتگو رہی ۔وزیر اعظم کے مشیر ماحولیات امین اسلم بھی خیبر پختون خوامیں بلین ٹری کے منصوبہ کی کامیابی کے بعد ملک بھر میں شجر کاری مہم کا آغاز کرچکے ہیں ۔لوگوں کو مفت درختوں اور پودوں کی فراہمی کا سلسلہ شروع کیا جارہا ہے ۔اِس شجر کاری مہم میں جیو ٹی وی بھی شامل ہو چکا ہے ۔شاہد صدیقی کے بیٹے کی شادی کی تقریب میں پی ٹی آئی کے سابق وزیر پارلیمانی امور بابر اعوان سے بھی ملے تھے اُس وقت وہ سابق نہیں تھے ۔اُن کو سلوٹ کہ جیسے ہی نیب میں اُن کا ریفرنس آیا تو وہ مستعفی ہوگئے ایسی روایتیں ہم پاکستانیوں کےلئے بالکل نئی ہیں ۔وزیر اعلی پنجاب عثمان بزدار میں بھی خاصا تحرک ہے ۔مسلسل حرکت میں رہتے ہیں یقیناً کسی وقت کہیں نہ کہیں اُن سے بھی ملاقات ہوجائے گی ۔وہ سو دن کے ایجنڈے کی پوری طرح نگرانی کررہے ہیں انہیں یقین ہے کہ چند دنوں میں تبدیلی کا احساس ہونا شروع ہو جائے گا ۔ان سے صرف اتنی گزارش ہے کہ پنجاب کے علاوہ کسی اورصوبے کی بیوروکریسی کے دروازے عوام کےلئے بند نہیں ہیں ۔ کسی افسر کو کوئی شخص بھی جا کر مل سکتا ہے ۔اس سلسلے میں انہوں نے افسران کو یہ جو حکم دیا ہے کہ روزانہ دو گھنٹے عوام کےلئے اپنے دروازے کھولیں یہ درست نہیں افسران کو چاہئے کہ وہ ہر ضرورت مند سے ملیں ۔عوام کےلئے ان کے دروازے دن بھر کھلے رہنے چاہئیں ۔جیسا خیبر پختون خوامیں ہے ۔وزیر مذہبی امور نور الحق قادری کا بھی دو مرتبہ فون آیا ۔ایک مرتبہ انہوں نے ناشتہ پر بھی بلایا شاید کسی سعودی وزیر نے اُن کےپاس آنا تھا مگر لاہور سے ناشتہ کےلئے اسلام آباد کےلئے صبح چار بجے اٹھنا پڑنا تھاسو میں نے معذرت کر لی۔نوری الحق قادری بھی انتہائی انتھک شخصیت ہیں۔مجھے پورا یقین ہے کہ مذہبی امور کی وزارت ان کی بدولت ایک نئے دور میں داخل ہوگی ۔وہ صرف مذہبی امور کے ہی نہیں بین المذاہب ہم آہنگی کے بھی وزیر ہیں۔سنا ہے وہ دنیا بھر سے مختلف مذاہب کے نمائندے پاکستان میں جمع کرکے مذہبی ہم آہنگی کا ایک بین الاقوامی چارٹرڈ تیار کرانا چاہتے ہیں ۔جس میں ہر مذہب کی اہم شخصیات کا احترام ضروری قرار دیا جائے۔

کل تقریبا ً آدھا دن فواد چوہدری کے ساتھ گزر گیا۔ پرسوں اُن کا پیغام ملا تھا کہ میں نےآج تین بجے پی ٹی وی لاہوراسٹیشن میں ’’پی ٹی وی کی ریوائیول ‘‘پر ایک پریذنٹیشن دینی ہے ۔سو رات بھر جاگ کر اِس قومی ادارے کی بہتری کیلئے جو کچھ سوچ سکتا تھا سوچا۔ جب پریذنٹیشن دینے گیا تو وہاں وزیر اطلاعات اکیلے نہیں پندرہ بیس لوگ اور بھی تھے ۔ میاں یوسف صلاح الدین بھی آئے ہوئے تھے ۔ پی ٹی وی کے نئے بورڈ آف گورنرز کے ممبرپروفیسر اعجازالحق بھی موجودتھے ۔خاصی اہم شخصیات جمع تھیں ۔سو حوصلہ کرکے جو کہنا تھا کہہ دیا۔اُس کے بعد پی ٹی وی لاہور کے جی ایم کا موڈ بھی خراب تھا ۔ باہر نکلا تو پی ٹی وی کی یونین کے کچھ لوگ میرے خلاف نعرے بھی لگا رہے تھے ۔حالانکہ میں نے اپنی پریذنٹیشن میں یونین کے ممبران کے حق میں بات کی تھی ۔اس پریذنٹیشن کی تیاری میں دو لوگوں نے میرا ساتھ دیا تھا اُن کا ذکر بھی ضروری ہے ۔ایک پی ٹی وی لاہور کے پروگرام منیجر افتخار ورک تھے اور دوسری مہ رخ تھی جس نے اسی سال فلم اور ٹی وی کے سبجیکٹ میں نیشنل کالج آف آرٹس سے گولڈمیڈل حاصل کیاہے ۔

وہاں سے نکلے تو ایک مقامی ہوٹل میں پی آئی ڈی کی ایک تقریب میں چلے گئے جس میں اخبارات کے کچھ مالکان ،کچھ اہم کالم نگار اور اینکر کے ساتھ وزیر اطلاعات کی گپ شپ میں ہوئی۔امیتاز عالم نے سوال کیاکہ ’’کیا آپ وزیر اطلاعات ہیں یا ڈی جی آئی ایس پی آر ‘‘۔سوال ایسا تھا کہ جس پر وزیر ِ اطلاعات کو برہم ہو جانا چاہئے تھا مگر وہ ہنس پڑے اور کہا’’ہم میں کوئی فرق نہیں ہے ۔ہم ایک پیج پر ہیں اور اِن شاء اللہ ایک پیج پر رہیں گے ‘‘اس تقریب میں مجیب الرحمٰن شامی اور عمر شامی تھے۔دونوں نے بڑے سلیقے کے ساتھ میڈیا کےمسائل بیان کئے ۔وہاں حسن نثار کو ضرور موجود ہونا چاہئے تھا مگر لگتا ہے کہ آج کل وہ لوگوں سے کم کم مل رہے ہیں ۔پہلے بھی زیادہ نہیں ملتے تھے ۔سنا ہےپنجاب کے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان توانہیں ملنے کےلئے اُن کے گھر تشریف لے گئے تھے ۔فیاض الحسن چوہان اس حوالے سےبڑے شاندار آدمی ہیں ۔ان میں تکبر نام کی کوئی شے ہے ہی نہیں ۔ایک شام میں نے انہیں کھانے پر بلایا تو وہ اپنے ایک دوست کے چھوٹی سی گاڑی میں آئے۔

میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کی اپنی گاڑی کہاں ہے تو کہنے لگے میں جیسے ہی شام چھ بجے گھر پہنچتا ہوں تو سرکاری گاڑی واپس بھیج دیتا ہوں کہ مجھے یہ گاڑی صرف سرکاری کاموں کے لئے استعمال کرنی چاہئے ۔میں نے انہیں سمجھایا کہ وزیر چوبیس گھنٹے وزیر ہوتا ہے سو گاڑی واپس بھیجنا قطعاً درست نہیں ۔پتہ نہیں انہوں نے میری بات پر کچھ توجہ دی ہے یا نہیں ۔

مجھے ڈاکٹر صغرا صدف نے اتوار کے دن اپنے دفتر میں بلایا تو میں نے حیرت سے پوچھا پنجابی آرٹ اینڈ کلچر کمپلیکس نےکیا اتوار کی چھٹی ختم کر دی ہے تو کہنے لگی۔ نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا۔اپنے وزیر اطلاعات فیاض الحسن چوہان نے آنا ہے ان کے پاس اور کوئی ٹائم نہیں تھا سو میں اتوار کے دن کو بھی غنیمت جانا۔یعنی یہ طے ہے کہ صاحبِ وزارت کے اوقات ابھی تک تو خاصے تلخ ہیں آگے دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین