• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اللہ ہی کی طرف سے آئے ہیں اور اللہ کی طرف ہی پلٹنا ہے۔ پچھلے ہفتے کی دو اموات پر۔رشک ہی رشک، بجھے ضرور، امیدِ سحر دے کر۔ موت اٹل، ایک سچائی، ہر نفس نے بالآخر ذائقہ چکھنا ہے۔پچھلے ہفتے کی دو اموات، ایک جہاں پر چھا گئی، تو دوسری اس کی پرچھائیں میںکچھ دھندلا گئی۔ بیگم کلثوم نواز کی موت اس لحاظ سے ہمہ گیر کہ ملک کے طول و عرض میں، گلی کوچہ،شہر قریہ، کونہ کھدرہ متاثر رہا۔بیگم کلثوم نواز کی موت جہاں کو رنجیدہ کر گئی،جہاں کو آباد کر گئی۔غم و غصہ دیدنی کہ جنازہ سے زیادہ ایک شعورتھا۔موت ایک بیانیہ اجاگر کر گئی۔پیر ومرشد سے معذرت، ؎

’’ مرنے والی‘‘ کی جبیں روشن ہے ان ظلمات میں

جس طرح تارے چمکتے ہیں اندھیری رات میں

دوسری موت، ایک گمنام (UNSUNG)قومی ہیر و حسن صہیب مراد غیرمعمولی ذہنی تخلیقی صلاحیتوں سے مالا مال،علم و فضل کی دنیا کا معمار،ادب و روابط میں یکتا، شفیق،پاکباز و پرہیز گار، اپنے والد، میرے مربی خرم جاہ مراد کی تصویر، تجھ سا کوئی دوسرا کہاں؟آناً فاناً داغ مفارقت دے گئے۔

کلثوم نواز کی موت پورے پاکستان کو جھٹکا دےگئی۔ہلا گئی۔بڑے بڑے قومی رہنما، پارٹی اکابرین، میڈیا اشرافیہ، پارٹی وفود، کاروباری رہنما (شخصیات) سب نے دلجمعی سے شریف خاندان کا سوگ بٹایا، بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔تعزیتی پیغامات، ایک دوسرے پر سبقت کی بازی۔ زرداری سے عمران خان سب یک زبان،ایک ہی تکرار،’’کلثوم نواز باوقار، جری، دلیر، معتبر، معزز شخصیت، اپنا لوہا منوا گئیں۔ڈکٹیٹر مشرف کا آغاز، خاندان کے مرد جیل میں یا گھروں تک مقید، بطورعلامت جمہوریت، ڈٹ کر میدان میں اتریں، ڈکٹیٹر کو ناکوں چنے چبوائے۔ایسی بہادر خاتون کہ’’گردن نہ جھکی جس کی جہانگیر کے آگے‘‘۔

روایتی تعزیتی پیغام سے غرض نہیںکہ بیشتر مفاداتی نمبر ٹانگنے، منافقت، رسم دنیا کے ہاتھوں مجبور۔اپنی غرض،عام آدم کہ عوام الناس کا ٹھاٹھیں مارتا سمندر، چارسُو تاحد نگاہ تک جنازے میں موجود،چہرہ چہرہ ماتم۔عوام الناس کی کلثوم نواز کی موت پر رنجیدگی سے زیادہ غصہ اور رد عمل، عجیب منظر تھا۔محتاط اندازے اور تخمینے، جنازہ تاریخی تھا۔ بھر پور عوامی شرکت غیر معمولی۔ عام آدمی کے کثرت جذبات، قوت اظہار اور شدت غم و رنج کی روح اورروانی، لمحہ بہ لمحہ داستان پر داستان رقم کر رہی تھی۔مگر جب بڑے جنازے دیکھتا ہوں تو تقابلی جائزہ اورما بعد اثرات سے نبردآزما رہنا پڑتا ہے۔اس سے پہلے ایک بڑا جنازہ قذافی اسٹیڈیم لاہور ستمبر 1979میں مولانا مودودی ؒ کا ادا کیا۔ لاکھوں شریک، ہر آنکھ نم، ہزاروں آنکھیں اشکبار، بے شمار آنکھیں خوں بار۔قطری مفتی اعظم الاستاد القرضاوی، خصوصی طور پر تشریف لائے تھے۔جنازہ دیکھ کر بے اختیار بولے، ‘‘ اہل پاکستان بلکہ دنیائے اسلام کے اصل بادشاہ تو سید مودودیؒ ہیں‘‘۔مزید فرمایا، ’’ حکمرانوں کے مشق ستم بننے والے، قید و بند میں جکڑے امام احمد بن حنبل اور امام ابن تیمیہ اپنے مخالفین سے کہا کرتے تھے کہ’’ ہمارے اور تمہارے درمیان فیصلہ ہمارے جنازے کر دیں گے‘‘۔مولانا مودودیؒ کا جنازہ نہیںایک ریفرنڈم تھا۔اگر معیار یہی تو کلثوم نواز کا جنازہ محترمہ کو مرجع خلائق کا رتبہ دے گیا۔مزید برآں، جنازہ نواز شریف کی سیاست کا سیاسی منظر وسیع و عریض کر گیا۔فی الواقع زبانِ خلق واقعتاًخدائی نقارہ ہی،روک سکو تو روک لو۔ تاریخ کی کتابوں سے ملتے جلتے واقعات کئی اور بھی۔9 سو سال پہلے خدا ترس بادشاہ شاہ خوارزم،ایک مضبوط سلطنت کا مالک تھا۔ اپنے مصاحب با تدبیر کے ہمراہ وقت کے صوفی عالم بزرگ مولانا بہائوالدین ( مولانا رومی کے والد) کی حاضری کا قصد کیا۔بہائوالدین کی رہائش کے قر ب و جوار میں لاکھوں انسانوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندر کی دھکم پیل دیکھی تو اپنی کم مائیگی کا احساس ہوا۔شاہ خوارزم نے اپنے آپ کو تنہامحسوس کیا اورالٹے پاؤں واپسی کی ٹھانی۔مشیر با تدبیر،جو مولانا بہائوالدین سے کدورت و عناد رکھتا تھا۔کان بھرے کہ حکومت آپکی، خلقت بہائوالدین کی۔اصل حکمران تو بہائوالدین ہیں۔شاہ خوارزم نے واپس پہنچتے ہی خزانے کی چابیاں مولانا بہائوالدین کو بھجوا دیں۔ سلطنت بلخ میںمیرے پاس اب یہی کچھ بچا ہے،یہ بھی آپ رکھ لیں۔صوفی عالم دین مولانا بہائو الدین نے پیغام میں پنہا ںسب کچھ سمجھ لیا۔بلخ سلطنت سے کوچ کر گئے۔محترمہ کلثوم نواز کا جنازہ یہی کچھ، سب کچھ نقش کر گیا۔جن لوگوں کے پاس اقتدار، عوام الناس سے محروم۔کیا آسانی سے کوچ کر جائیں گے؟ہرگز نہیں۔جنازہ نواز شریف کو اول و آخر پاکستانی سیاست کا جزو لا ینفک بنا چکا،سیاست کا محور آج بھی نواز شریف ہی۔فٹ بال گراؤنڈ کے اندر تل دھرنے کی جگہ نہیں،کئی کلومیٹر تک ٹریفک جام، خلقت امڈ امڈ وار فتگی سے جنازہ پرپہنچنے میں ہر وسیلہ ذریعہ بروئے کار لا رہی تھی۔بے شمار کا مقدر ناکامی بنی۔ خطرناک بات اتنی کہ سیاسی منافرت اور غم و غصے نے اکثر کے ہوش و حواس معطل، ذہن مفلوج کر رکھے تھے۔؎

دل کے غبار نے راہ جو پائی

شہر میں گویا آندھی آئی

جنازے پرنعرے اوراحتجاج۔ اسی سانحے سے بچنے کے لیے لکھتا رہتا ہوں۔ جس طرح ممتاز قادری کا جنازہ میاں نواز شریف کے لیے خطرناک تھا۔ کلثوم نواز کے جنازے میں عوام کی کثیر تعداد ایک سگنل دے رہی۔اخلاق و معاشرت اتنی بگڑ چکی کہ کلثوم نواز کی موت پر جہاںعزت اور تکریم نے بلندیوں کی ہر سطح کو چھوا۔وہاںدفنانے سے پہلے ہی خبث،غلاظت،بہتان الزامات کیچڑ آلودگی کے اپنی تالیف ِقلب، آسودگی میں حدیں ٹاپیں۔بغض اور عناد موجود، حسد نے جکڑنا ہی تھا۔

لگے منہ بھی چڑانے،دیتے دیتے گالیاں صاحب

زبان بگڑی تو بگڑی تھی،خبر لیجیے دہن بگڑا

حفیظ جالندھری ایک ہاتھ آگے۔؎

خبث دروں دکھا دیا ہر دہن غلیظ نے

کچھ نہ کہاحفیظ نے ہنس دیا، مسکرا دیا

آفرین خاتون خانہ پر، اپنی جان دے کر نواز شریف/ مریم نواز کی سیاست میں جان ڈال گئیں۔ نواز شریف کی سیاست کے پیچھے جس عورت کا ہاتھ تھا، رخصت ضرورہوئیںنواز سیاست کو چار چاند لگا گئیں۔نئی روح پھونک گئیں۔خوگر حمد سے گلہ تھوڑا سا بھی سن لیں۔ پارٹی نے نواز شریف کی قربانی اور بیانیے کا خاطر خواہ فائدہ نہیں اٹھایا۔اے مسلم لیگ کے رہنماؤ،عوام الناس سے رہنمائی لو۔اس میں باک نہیں 13جولائی، نواز شریف کی لاہور آمدپر جس طرح شدت، جذبہ،دیوانگی ملی۔ ہزاروں لوگ تابڑ توڑ اکٹھے ہوئے۔ صد افسوس! قائدین نے ہومیو پیتھک ادویات دے کر سب کو گھر واپس بھیج دیا۔گلہ نہیں،کلثوم نواز کے جو کچھ ذمہ نہیںتھا، وہ ادا کر گئیں۔

جنازہ کا پیغام ایک ہی،جذبہ مرنے نہیں دینا،زندہ رکھنا ہے جب تک نواز شریف سلاخوں سے باہر نہیں آجاتے۔بڑے لیڈروں کیلئے دل سے ہمیشہ ایک ہی دعا کہ خدا تمہیں کسی طوفان سے آشنا کر دے، کہ لیڈر کا امتحان یہی۔۔ قوی امید کہ نواز شریف اور مریم کی ضمانت، ان شا ء اللہ ایک دو روز میں۔اگر کلثوم نواز کی روح کا ایک ہی مطالبہ، تسکین دینی ہے، وفا کرنی ہے تو اڈیالہ سے جاتی امرا براستہ جی ٹی رو ڈ پہنچنا ہے باقی سارے راستے مسدود رکھنے ہونگے۔ واپسی کے سفر نے فیصلہ کرنا ہے کہ کلثوم کی تحریک سے انصاف ہوا ہے۔ذاتی افسوس بھی، محترمہ کلثوم نواز کی موت پر، حسن صہیب مراد کی شہادت پس پشت رہی۔گمنام (UNSUNG) ہیرو کا لفظ بہت استعمال میں،صحیح معنوں میں دیکھنے کو کم۔ حسن صاحب واقعتاََ ایک گمنام ہیرو۔مجھے افسوس کہ ہمارے میڈیا کے لیے بڑی خبر نہ بن پائے اور بڑے کالموں میں جگہ نہ پاسکے۔مرحوم جنرل حمید گل اور حسن صہیب مراد صاحب بدھ کو کالم چھپنے پر باقاعدگی سے فون پر حوصلہ افزائی فرماتے تھے۔جنرل صاحب آخری سالوں میرے کالموں کو آڑے ہاتھوں لیتے اور مشفقانہ مشورے دیتے۔حسن صاحب کبھی کبھار متن سے متفق نہ ہوتے تب بھی ایک فقرہ ہر دفعہ دہراتے کہ ’’ آپ کے مؤقف کے پیچھے دلیل مضبوط ہے، رد کرنا ممکن نہیں۔یہ انکی ذرہ نوازی ‘‘۔ایسے بڑے آدمیوں کی حوصلہ افزائی سے میرا لکھنے سے ربط مضبوط ہوجاتا۔ حسن صاحب قید مقام سے گزر گئے۔یقیناََ اپنا اعمال نامہ دائیں ہاتھ میں پکڑے خوش و خرم خالقِ حقیقی کے حضور میں۔، زیر لب،دل آویز مسکراہٹ ہمیشہ چہرے پر سجی، سحر انگیز شخصیت، معتدل خیالات،تن من دھن نظریہ سے وابستہ، علم و فضل کا منبع،بین الامذاہب ہم آہنگی کے لیے کوشاں، ہمیشہ جہد مسلسل میں دیکھا۔ زندگی کا لمحہ ضائع نہیں کیا۔زخمی حالت میں بیٹے ابراہیم کی گود میں جان دی تو کراہنے کا وقت نہیں تھا، فقط کلمہ شہادت، سارا جسم ڈھیلا، شہادت کی انگلی میں ساری طاقت،آسمان کی طرف بلند۔۔۔۔۔ کامیاب انسان۔ یا اللہ ایسی موت ہمارا مقدر بنا (آمین)۔

تازہ ترین