• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

--oاَنا کی مقدس شکلیں انسانیت کی بڑی اذیتوں میں سے ایک ہیں۔

--oجس کے پاس اختیار ہے اس کے پاس سچ ہے۔ دلائل محض بہانہ ہیں۔

--oعام لوگوں کو ستاروں کا حساب جاننے سے منع نہ کرو، سکندر کا تذکرہ صرف کتابوں کیلئے رکھا گیا ہے۔

--oپاکستان کے ایک نیک آدمی نے کہا تھا ’’دستور بارہ صفحے کی ایک دستاویز ہے جب چاہوں پھاڑ دوں‘‘ یہ لوگ واقعی اپنے معمولات زندگی میں ’’نیک‘‘ مگر ’’زندگی‘‘ کی مکمل موت کا پیغام ہوتے ہیں۔

--oہمارے اعمال ہماری گھات میں ہیں۔ قوموں اور افراد میں سے جو ’’سازشوں‘‘ کا چارہ کھاتے ہیں، وہی وقت کے ڈائناساروں کی خوراک بنیں گے۔

--oسوویت یونین ٹوٹا یا نہیں؟ افغانستان بکھرایا نہیں؟ بھارت ٹکڑے ٹکڑے ہوا یا نہیں؟ ’’الہامی‘‘ اطلاعات کی بنیاد پر ’’قیام پاکستان‘‘ کے علمبرداروں کا پاکستان البتہ ضرور دو لخت ہو گیا۔ استغفار!

--oناہید خان نے پاکستان پیپلز پارٹی کے مقابلے میں ’’جماعت‘‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ قریب قریب ایک دہائی کے بعد عائشہ گلالئی نے عمران خان کی تحریک انصاف کے مقابلے میں اپنی جماعت بنا لی ہے۔ خواری کی بہت سی اقسام ہیں سب سے خطرناک اس سے بے خبر رہنا ہے۔

--oذہنی شیطانوں کے مجمعوں کو پہچانو! تمہارے اردگرد رقص کناں ہیں، بدترین گروہ قومی سطح کے اکثر اٹھائی گیروں کا ہے۔

--o’’آئین کی بالادستی، ووٹ کی حرمت اور جمہوری تسلسل‘‘ ابھی تک تو پاکستان پیپلز پارٹی کا چہرہ روشن ہے مگر ہاتھ میں کالا برش پکڑے کبھی کبھار اپنے جمہوری مستقبل پر کالک ملتی دکھائی دیتی ہے۔

--oوکلاء قانون کے ’’محافظ‘‘ ہیں، ہر پاکستانی اس ’’حفاظت‘‘ کی تصدیق کرتا ہے بشرطیکہ آپ کمرہ بند کر کے ان کے خیالات سے استفادہ فرمائیں۔

--oڈیرہ اسماعیل خان کی ’’عریاں‘‘ ملتان کی ’’پامال‘‘ اور قصور کی ’’زینب‘‘ دنیا کے کیچڑ میں لتھڑے دنیا پرستوں کا صرف سیاسی شغل تھیں۔

--oسنو! انسان کی ’’عبادت‘‘ اور انسان کی ’’شقاوت‘‘ دونوں حیرت کدہ سے کم نہیں۔

--oتم چاہتے ہو، سچے قلمکاروں کے چہرے اور لفظ جانو، اور کچھ کرو نہ کرو روسی تحقیق کاروں کی کتابیں اٹھائو، ایک دانشور کا کہنا ہے ’’یہ Aliensتھے!‘‘

--o’’وکالت‘‘ کی طرح ’’صحافت‘‘ بھی ایک مقدس پیشہ ہے اس کی ’’تصدیق‘‘ کے لئے کسی بند کمرے میں کسی عام پاکستانی کے ’’خیالات عالیہ‘‘ سے مستفید ہوا کرو، پتہ چل جائے گا۔ دنیا کے اسی سیارے پر ’’اعمال‘‘ کا ’’روشن‘‘ یا ’’تاریک‘‘ چہرہ طے پایا جاتا ہے۔

--oپنجابی، یہ قومیت عمومی طور پر موت سے نہیں ڈرتی ساتھ ہی زندگی کا احترام بھی قطعی نہیں کرتی۔

--oقائداعظمؒ نے فرمایا تھا ’’بلوچ کی ہمیشہ عزت کرنا‘‘ پاکستانی اقتدار کے پنجابی کرداروں نے اس فرمان پر سو فیصد عمل کیا، بلوچوں سے پوچھ لو۔

--o’’نوکری کیا اور نخرہ کیا‘‘ تفصیلی وضاحت کے لئے جنرل ایوب، مشرف، یحییٰ اور ضیاء الحق کے حالات زندگی سامنے رکھے جائیں۔ 

--o’’تاریخ کا حیران کن المیہ‘‘ انسانی زندگی کے امتحانی سفر میں یہ جملہ بذات خود تاریخ کا ایک ’’حیران کن المیہ‘‘ ہے۔

--oجھیلیں، جھرنے، وادیاں، باغ، پہاڑ وغیرہ وغیرہ یہ کہاں ہوتے ہیں؟ ہمیں تو اپنی قومی سیر کے اہم ترین مقام ’’آب پارہ‘‘ کے علاوہ چاروں اور کبھی کچھ دکھائی ہی نہیں دیا۔

--oدہلی میں تین دن قتل عام کے بعد نادر شاہ نے اپنی تلوار نیام میں ڈال لی۔ لوگوں نے دیواروں پر مکافات عمل کے نعرے لکھ دیئے۔ نادر شاہ نے سپاہ کو حکم دیا ’’جہاں جہاں ایسے نعرے لکھے ہوئے ہیں وہاں وہاں تم بھی لکھ دو:’’لیکن بعد از بربادیٔ مظلوم!‘‘

--oہماری زندگی کی ساری اکڑفوں سانسوں کے تسلسل کا نام ہے۔ سانس ختم ہوئے تم بلے لگ گئے۔ کیوں ایڑیاں اٹھا اٹھا کے پھدک ، چہک اور لہک کر سارا جہاں فتح کرنے کیلئے گلا پھاڑ رہے ہو، تمہیں کیا ہو گیا ہے، اے بندے۔

--oپاکستان خزانوں سے بھرا ہوا ہے۔ اصل مسئلہ غیر آئینی کدال برداروں کا ہے،

--oامریکی صدر ٹرمپ مملکت خداداد پاکستان کے بارے میں متعصب ہے۔ ہم ذرا سیاستدانوں کی ایسی تیسی سے فارغ ہو لیں ٹرمپ کو بھی دیکھ لیں گے۔

--oمولانا فضل الرحمٰن بلوچستان کے مسئلہ پر اپنے ارکان اسمبلی کے ذاتی حالات کے ارتقا میں کامیاب نہیں ہو سکے اب عمران کی مخالفت میں بھی صرف ’’لکڑیاں ‘‘ لے رہے ہیں بات نہیں بن رہی۔

تازہ ترین