چھبیس سالہ میسا اپنی زندگی کے مشکل ترین وقت سے گزر رہی تھی وہ چھ ماہ سے ملازمت کے حصول میں ناکام تھی اور یہی وجہ تھی کہ گزشتہ دو ماہ سے وہ اپنے مکان کا کرایہ بھی ادا کرنے سے قاصر تھی ۔ معاشی حالات دن بدن خراب ہوتے جارہے تھے خود دار ایسی تھی کہ نہ ماں باپ اور نہ ہی دوستوں کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی ہمت تھی اور نہ ہی حکومت کے سامنے غریبوں کے فنڈ سے پیسے حاصل کرنے کی ۔ دو ماہ سے مالک مکان فون پرکرایہ طلب کررہاتھا اور ہر دفعہ وہ اگلے ماہ کا کہہ کر کچھ وقت حاصل کرلیتی ۔لیکن کل پھر تیسرا مہینہ پورا ہورہا تھا اور مالک مکان کا فون آنا تھا ۔اب اس کے پاس صرف دوہی راستے بچے تھے کہ یا تو کسی کے سامنے ہاتھ پھیلا کر اپنے مسائل حل کرلے یا پھر اپنی غیر ت اور انا کے آگے مجبور ہوکر ہاتھ پھیلائے بغیر خود کشی کرلے ۔ وہ انتہائی ڈپریشن میںگھر سے نکلی ،اس نے کسی کے سامنے ہاتھ نہ پھیلائے ورنہ حکومت بھی ساتھ کھڑی ہوجاتی ، والدین بھی اور معاشرہ بھی۔ لیکن ہاتھ پھیلانا بھی اس کے لیے اس کی خودداری کی موت ہی تھا لہٰذا اس نے موت کو گلے لگانے کو ترجیح دی اور پھر ایک ریلوے اسٹیشن پر ٹرین آنے سے صرف چند لمحے قبل اس نے ریلوے پھاٹک پر چھلانگ لگا کر زندگی کی بازی ہاردی ۔ دنیا کے کئی ممالک بشمول پاکستان میں کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کو بہت بڑی توہین تصور کیا جاتا ہے ،ہم بھی اپنی دعائوں میں یہی مانگا کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کبھی کسی کا محتاج نہ بنائے اللہ تعالیٰ کبھی کسی کے سامنے ہاتھ پھیلانے کی نوبت نہ لائے ، لیکن یہ معاملات ذاتیات کے ہیں جبکہ ہم قومی سطح پر اتنے زیادہ مدد کے محتاج ہوگئے ہیں کہ ہم اس بات پر بھی اپنے دوست ممالک سے ناراض ہوجاتے ہیںکہ انھوں نے ہماری امداد کیوں بند کردی ہے ،اور ان خبروں سے اتنے خوش ہوجاتے ہیں جن میں ہمیں امداد کی خوشخبری سنائی جاتی ہے بطور قوم ہمارے لیے یہ خوشخبری سمجھی جاتی ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے لیے پانچ سو ملین ڈالر کی امداد کا اعلان کردیا ، سعودی عرب نے پاکستان کو مشکل وقت میں دس ارب ڈالر دینے کا اعلان کردیا ، جاپان نے پاکستان کی امداد بحال کردی ،جبکہ قرض ملنا بھی ہماری قوم کے لیے خوشخبری سمجھا جاتا ہے جیسے چین نے سی پیک کے لیے پاکستان کو بیس ارب ڈالر سے زائد کا آسان قرض فراہم کردیا ، جاپان پاکستان کو کم شرح سود پر بھاری قرض فراہم کرے گا ،امریکہ پاکستان کو معاشی مسائل سے نکلنے کے لیے کم سود پر قرض فراہم کرے گا۔
سعودی عرب نے پاکستان کے لیے آسان شرائط پر قرض کی فراہمی کا یقین دلادیا غرض ہمیں بطور قوم یہ باور کرادیا گیا ہے کہ امداد اور قرض ہی ہماری معاشی ترقی کا راز ہے لیکن گزشتہ چالیس سالوں سے ہم امداد اور قرض کے حصول کے باوجود آج تک ترقی نہیں کرسکے جبکہ وہ ممالک جنھیں نہ تو امداد میسر تھی اور نہ ہی قرض آج وہ نہ صرف ترقی یافتہ بن گئے ہیں بلکہ ہم جیسے ممالک کو قرض بھی فراہم کررہے ہیں ۔
جہاں تک پاکستان کی بات ہے تو اب نیا پاکستان بننے
جارہا ہے عمران خان نئے وعدوں اور نئے خوابوں کے ساتھ اقتدار میں آ گئےہیں لہٰذا بطور ایک درد مند اوراوورسیز پاکستانی وزیر اعظم پاکستان عمران خان سے درخواست ہے کہ وہ پاکستانی قوم کے دماغ سے قرض اور امداد کو بطور کامیابی کے غلط بیانیے سے نکالیں اور انھیں محنت کرکے کامیاب ہونے کا سبق پڑھائیں ،وزیر اعظم سے یہ بھی درخواست ہے کہ دیامر بھاشا ڈیم کے لیے جس طرح انھوں نے دنیا بھر میں مقیم پاکستانیوں سے امداد کی اپیل کی ہے اس میں کچھ تبدیلی کرتے ہوئے ہماری طرف سے نہیں بلکہ لاکھوں بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے ان دو اہم تجاویز کا ضرور جائزہ لیں تاکہ اتنے بڑے منصوبے کے ساتھ چندہ ، امداد اور زکوۃ جیسے الفاظ استعمال نہ ہوں بلکہ دیامر بھاشا ڈیم ایک قومی منصوبہ کہلایا جاسکے جس میں پوری قوم کی سرمایہ کاری شامل ہو کیونکہ اس منصوبے کی تکمیل کے ساتھ ہی یہ منصوبہ سالانہ اربوں ڈالر کمانے والا منصوبہ بن جائے گا وجہ یہ ہے کہ اس منصوبے سے ساڑھے چار ہزار میگا واٹ بجلی پیدا ہوگی ، ساڑھے آٹھ ملین ایکڑ فٹ پانی جمع ہوسکے گا۔ لہٰذا ہماری تجویز ہے کہ اس سے ہونے والی آمدنی منصوبے میں سرمایہ کاری کرنے والے پاکستانیوں میں تقسیم کی جائے یوں یہ ایک امدادی منصوبہ نہیں بلکہ سرمایہ کاری منصوبہ کہلانے کے قابل
ہوسکے گا ۔ اس حوالے سے ایک معروف اوورسیز پاکستانی چارٹرڈ اکائونٹنٹ کے مطابق اگر حکومت پاکستان دیا مر بھاشا ڈیم کی تعمیر کے لیے ایک پبلک پرائیوٹ پارٹنر شپ کمپنی بنا کر اس کے اکیاون فیصد شیئر ز اپنے پاس رکھے اور انچاس فیصد شیئر زپچاس لاکھ اسٹاک کی صورت میں اوورسیز پاکستانیوں کو فروخت کردے اور ہر اسٹاک کی قیمت ایک ہزار ڈالر رکھی جائے تو آپ دیکھیے گا کہ کتنی جلدی یہ پچاس لاکھ اسٹاک پاکستان کے لیے پانچ ارب ڈالر جمع کرنے کا سبب بن سکتے ہیں اور پھر جیسے ہی یہ ڈیم تیار ہوجائے اس سے ہونے والی آمدنی میں ان اسٹاک ہولڈرز کو معقول منافع اور حصہ دیا جائے اس سے پاکستانی قوم کے اندر اس ڈیم کی اونر شپ کا احساس بھی ہوگا اور دیا مر بھاشا ڈیم چندے اور زکوٰۃ کے پیسوں کا ڈیم بھی نہیں کہلائے گابلکہ یہ ڈیم پاکستانی عوام کا ڈیم کہلائے گا اس تجویز پر حکومت کو توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔دوسری اہم تجویز سنگا پور میں مقیم سینئر پاکستانی اور معروف شپنگ کمپنی کے مالک لطیف صدیقی نے دی ہے جبکہ اس کی تائید پاک جاپان بزنس کونسل کے صدر رانا عابد حسین اور سندھ کے ڈائریکٹر اشفاق احمد نے بھی کی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ اگر حکومت نے دیا مر بھاشا ڈیم عوام کے چندے اور امدادسے بنانے کا فیصلہ کرہی لیا ہے تو اس ڈیم کے ساتھ ہی
ایک بہت بڑی یادگار بھی تعمیر کی جائے جس میں کم ازکم ایک لاکھ چھوٹے بڑے ماربل لگائے جائیں اور ڈیم فنڈ میں جو پاکستانی ایک لاکھ ڈالر یا اس سے زیادہ فنڈ دے تو ایک ماربل پر اس کا نام سنہرے حروف میں لکھا جائے پھر پچاس ہزار ڈالر یا اس سے زائد کا کوئی فنڈ دے تو اس کا نام بھی ایک ماربل میں جلی حروف سے تحریر کیا جائے اور پھر اگر کوئی پاکستانی دس ہزار ڈالر یا اس سے زائد فنڈ دیتا ہے تو اس کا نام بھی جلی حروف میں تیسری رو میں تحریر کیا جائے پھر ایک ہزار سے دس ہزار ڈالر دینے والے پاکستانی کا نام بھی اس کے فنڈ کے حساب سے معقول جگہ پر تحریر کیا جائے ، اس طرح ڈیم میں حصہ ڈالنے والے پاکستانیوں کی حوصلہ افزائی ہوسکے گی اور لوگ بڑھ چڑھ کر اس کار خیر میں حصہ لیں گے ۔میں سمجھتا ہوں کہ اوورسیز پاکستانیوں کی یہ دونوں تجاویز انتہائی سادہ اور قابل عمل ہیں کیونکہ دنیا میں ہر مسلمان اپنے یا اپنے والدین یا اپنی اولاد کے نام سے صدقہ جاریہ کرنا چاہتا ہے اور اگر دیا مر بھاشا ڈیم جیسے اہم ترین پانی کے منصوبے پر ان پاکستانیوں کے نام پر ایک یادگار تعمیر ہو اور ہر پاکستانی کا اس کے کردار کے حساب سے نام بھی تحریر ہوجائےتو یہ ایک قابل تعریف عمل کہلائے گا جس پر حکومت کا خرچہ تو کم ہوگا لیکن لوگوں کی بہت بڑی تعداد اس میں شامل ضرور ہوجائے گی۔