• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

سنکیانگ میں تبدیلی سوچ کے مراکز چینی ایغور مسلمان خوفزدہ

بیجنگ (جنگ نیوز) گزشتہ کچھ برسوں کے دوران چین میں ایغور اور قازق نسل کے لاکھوں افراد کو مبینہ طور پر مخصوص مراکز میں بند کر دیا گیا ہے۔ جرمن خبررساں ادارے نے ذہنی تربیت کے ایسے ہی ایک مرکز میں مقید رہنے والے ایک شخص کے اہل خانہ سے ملاقات کی۔قائرات سمر خان بظاہر گم سم اور بے نیاز دکھائی دے رہا تھا، ہو سکتا ہے کہ وہ پورا دن کام کرنے کے بعد تھکان سے چور ہو۔ وہ ایک مرتبہ اپنا سر دیوار میں مار کر اپنی جان لینے کی کوشش بھی کر چکا ہے، ’’مجھ سے یہ سب کچھ برداشت نہیں ہو رہا‘‘۔سمر خان کا تعلق چینی صوبے سنکیانگ سے ہے اور وہ اس صوبے میں مسلمانوں کی ذہنی تربیت کے نام پر قائم مراکز میں قید بھی رہ چکا ہے۔ ان حراستی مراکز میں مسلم شہریوں کو رکھا جاتا ہے اور انہیں ’تعلیم‘ دی جاتی ہے تاکہ وہ شدت پسندی کی جانب راغب نہ ہو سکیں۔بین الاقوامی تنظیموں کے مطابق اس پورے خطے میں پھیلے ہوئے ان مراکز میں ایک ملین سے زائد شہری زبردستی رہنے پر مجبور ہیں۔ ان میں زیادہ تر ایغور اور قازق نسل کے لوگ ہیں۔انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس واچ کے مطابق چین میں ثقافتی انقلاب کے بعد اس پیمانے کی انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں پہلے نہیں دیکھی گئیں۔قزاقستان کے دارالحکومت آلماتی میں’Atajurt‘ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم کے دفتر میں بہت سارے افراد اکھٹے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر کے ہاتھوں میں اپنے اُن رشتہ داروں کی تصاویر اور شناختی دستاویزات ہیں، جنہیں مبینہ طور پر چینی حکام نے سنکیانگ میں حراست میں رکھا ہوا ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کی ایک ٹیم ان تمام افراد کی داد رسی کرتے ہوئے یہ تفصیلات درج کرنے کا کام کرتی ہے۔’Atajurt‘ کا قیام 2017ء میں اس وقت عمل میں آیا تھا، جب پہلا قازق شہری رہائی کے بعد اس وسطی ایشیائی ملک پہنچا تھا۔ اس تنظیم کے بانی نے بتایا، ’’جب ہم نے اس پہلے واقعے کی تفصیلات عام کیں تو کسی نے ہم پر یقین نہیں کیا تھا۔‘‘ قزاقستان کے سنکیانگ صوبے سے قریبی روابط ہیں۔ تقریباً سولہ لاکھ قازق نسل کے افراد اس چینی صوبے میں رہتے ہیں۔چینی

تازہ ترین