• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نواز فیملی سزامعطلی کیس، نیب نے آج دلائل مکمل نہ کئے تو بھی فیصلہ سنادینگے، اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد(صباح نیوز) اسلام آباد ہائیکورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے تحریری حکم جاری کیا ہے کہ اگر نیب پراسیکیوٹر کے شریف فیملی کی سزا معطلی پر دلائل مکمل نہ بھی ہوئے تو آج فیصلہ سنا دیا جائیگا۔ دوران سماعت جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ جائیداد بچوں کے قبضے میں ہے تو نواز شریف کی ملکیت کیسے ہو گئی ؟ ، کیا مفروضے پر فوجداری قانون میں سزا سنادیں؟ جبکہ جسٹس گل حسن نے کہا کہ مر یم کو معاونت کی سزا ذرائع آمدن پر کیسے ہوگئی ،اگر جائیداد نواز شریف کی بھی ہے تو مریم کو 9 اے 5 میں سزا کیسے دی گئی ؟ گزشتہ روز اسلام آباد ہائیکورٹ کے جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے سابق وزیراعظم نواز شریف، مریم نواز اور کیپٹن (ر) صفدر کی سزا معطلی کی درخواستوں پر سماعت کی،سماعت کے دوران جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ جائیداد بچوں کے قبضے میں ہے لیکن ملکیت نواز شریف کی ہے، بظاہر احتساب عدالت کا فیصلہ مفروضے کی بنیاد پر ہے ، جب پاناما 2 فیصلہ آیا تو وہ تمام ججز پر بائینڈنگ تھا اور پہلا فیصلہ بائنڈنگ نہیں قرار دیا جس پر نیب پراسیکیوٹر نے بتایا کہ پاناما پر دوسرا فیصلہ تسلسل ہے۔ جسٹس اطہر من اللہ نے کہا کہ پاناما 2 کو تمام ججز نے دستخط کیے، جسٹس میاں گل حسن نے کہا پہلے فیصلے میں نااہلی نہیں ہوئی اور وہ فیصلہ منارٹی ججز کا ہے جس پر نیب پراسیکیوٹر نے کہا یہ معمولی کیس نہیں، پیسے لیے اور جیب میں ڈالنے سے متعلق کیس نہیں بلکہ لاتعداد کمپنیوں کا جال بچھا ہوا ہے،اکرم قریشی نے کہا کہ اس کیس کو اتنے مختصر وقت میں تفتیش کرنا ممکن ہی نہیں تھا، اس مرحلے پر عدالت کا کوئی بھی تبصرہ مناسب نہیں ہوگا جس پر جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے کہا کہ بہت اچھی بات کہی آپ نے۔ نیب پراسیکیوٹر نے دلائل میں کہا کہ بچے والدین کے ہی زیر کفالت ہوتے ہیں، لندن اپارٹمنٹس کا قبضہ بچوں کے پاس تھا، باپ بچوں کا نیچرل سرپرست ہے جسکے قبضے میں جائیداد ہے ملکیت کا بار ثبوت اس پر ہے، والد اور سرپرست ہونے کی وجہ سے بار ثبوت ان پر ہے اور یہ کہتے ہیں حسن اور حسین ہی بتا سکتے ہیں، اخراجات ریکارڈر پر نہیں ہیں جس پر جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ یہ کہتے ہیں کہ آمدن سے متعلق چارٹ واجد ضیا نے پیش نہیں کیا، تفتیشی افسر نے بھی کہا تھا معلوم نہیں یہ چارٹ کس نے تیار کیا، بوگس ٹرسٹ ڈیڈز بنائی گئیں جس پر فاضل جج نے استفسار کیا کہ کیا یہ ٹرسٹ ڈیڈز وہاں پر رجسٹرڈ ہوئیں؟ اکرم قریشی نے جواب دیا یہ ٹرسٹ ڈیڈز صرف بھائیوں کو بتانے کی حد تک تھیں،جسٹس میاں گل حسن نے کہا کہ بھائی بھی تو نواز شریف کے بیٹے ہیں جبکہ جسٹس اطہر من اللہ نے نیب پراسیکیوٹر کو کہا آپ نے فرد جرم یہ عائد کی کہ یہ جائیداد نواز شریف کی ہے، آپ کی فرد جرم یہ نہیں کہ مریم نواز مالک ہے ، جسٹس اطہر من اللہ نے استفسار کیا کہ کیا اب مفروضے پر فوجداری قانون میں سزا سنا دیں، یہ مفروضہ کہ جائیداد بچوں کے قبضے میں ہے لیکن ملکیت نواز شریف کی ہے، بظاہر احتساب عدالت کا فیصلہ مفروضے کی بنیاد پر ہے،جسٹس میاں گل حسن نے استفسار کیا دو طرح کی ملکیت ایک ہی وقت میں کیسے ہوسکتی ہے؟ یا وہ ظاہری مالک ہیں یا حقیقی مالک ہیں جس پر پراسیکیوٹر نیب نے کہا کہ مریم نواز نے معاونت کی ہے جس پر جسٹس میاں گل حسن نے کہا اگر یہ جائیداد نواز شریف کی ہے تو مریم نواز کو 9 اے 5 میں سزا کیسے ہوگئی، یہ فرد جرم کہ اثاثے ذرائع آمدن سے زیادہ ہیں دو بندوں پر تو نہیں لگ سکتی، معاونت کی سزا تو ہوئی لیکن ذرائع آمدن پر کیسے ہوگئی\۔

تازہ ترین