• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

تحریک انصاف حکومت کا منی بجٹ پارٹی منشور پر پورا نہیں اترا

اسلام آباد ( رپورٹ:وسیم عباسی) تحریک انصاف نے اپنے انتخابی منشور میں وسیع پیمانے پر ٹیکس اصلاحات متعارف کرانے کا وعدہ کیا تھا لیکن منگل کو پیش کردہ منی بجٹ ان وعدوں کے برعکس رہا ، دوسری جانب وزیر خزانہ نے کہا ہےکہ زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گررہے ہیں، بجٹ خسارہ گردشی قرضوں کی وجہ سے 8.6فیصد تک پہنچ گیا ،معیشت کا بحران سنگین ہو گیا ،حکومت کے پاس انتظا ر کرو اور دیکھو کی پالیسی کا وقت نہیں تھا۔ تفصیلات کےمطابق تحریک انصاف کے منشور کے مطابق وہ ایف بی آر کی اصلاح اور مضبوط ٹیکس پالیسی کے تحت ٹیکس نیٹ میں اضافہ کرے گی، ٹیکس کے انتظامی ڈھانچے اور میکانزم کو مؤثر بنایا جائے گا، تاہم بجٹ میں ترامیم کے ذریعہ وزیر خزانہ اسد عمر نے گزشتہ حکومت کی متعارف کردہ ٹیکس اصلاحات کو اُلٹ دیا۔ ٹیکس گوشوارے داخل نہ کرنے والوں کو بڑی چھوٹ دیتے ہوئے ان کے پاکستان میں جائیدادیں خریدنے پر عائد پابندی ختم کر دی گئی ہے۔ گزشتہ بجٹ میں 40لاکھ روپے سے زائد مالیت کی جائیدادیں خریدنے کے نان فائلرز پر پابندی تھی۔ ٹیکس دہندگان میں نام نہ ہونے کی صورت وہ نئی گاڑیاں بھی نہیں خرید سکتے تھے۔ گزشتہ بجٹ پیش کرنے والے سابق وفاقی وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل نے بجٹ میں تحریک انصاف کی حکومت کی پیش کردہ ترامیم کو ہدف تنقید بنایا اور کہاکہ پرانا پاکستان میں تحریک انصاف بالواسطہ ٹیکسوں سے نالاں اور انہیں رجعت پسندانہ تصور کرتی تھی۔ لیکن نئے پاکستان میں تحریک انصاف نے یو ٹرن لے لیا ہے۔ موجودہ حکومت 90ارب روپے کے نئے بالواسطہ ٹیکسز عائد کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ اپنے ٹوئٹ میں مفتاح اسماعیل کا کہنا تھا کہ ’’ٹیکسوں کی شکل میں تبدیلی آ گئی۔ انہوں نے کہاکہ مسلم لیگ (ن) کی گزشتہ حکومت نے کارساز کمپنیوں اور لینڈ ڈیولپرز کے آگے گھٹنے نہیں ٹیکے لیکن افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ کارساز جیت اور ٹیکس دہندگان ہار گئے۔ قیمتی جائیدادیں خریدنے والے نان فائلرز سے پابندی اٹھانے کا دفاع کرتے ہوئے وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ بیرون ممالک مقیم اکثر پاکستانیوں کو شکایت تھی کہ وہ ٹیکس ادائیگیوں سے مستثنیٰ ہونے کے باوجود جائیدادیں نہیں خرید سکتے۔ تاہم مالیاتی ماہرین کی رائے میں اس بارے میں صرف بیرون ممالک مقیم پاکستانیوں ہی کو استثنیٰ دیا جاتا۔ تحریک انصاف نے اپنے منشور میں یہ اعتراف کیا کہ جی ڈی پی سے ٹیکسوں کا رواں تناسب بڑھتے ہوئے سالانہ اخراجات اور قرضوں کی ادائیگی کی مد میں نمایاں طور پر کم ہے۔ ٹیکس پالیسیاں غیر معیاری ہونے کے باعث ٹیکس نیٹ میں کمی واقع ہوئی۔دوسری جانب وزیر خزانہ نے کہاہےکہ معیشت کا بحران سنگین ہو چکا ہے ، اندرونی طور پر حکومت نے اسٹیٹ بینک سے 1200ارب روپے کا قرضہ لیا یعنی نوٹ چھاپے جو تاریخ میں سب سے زیادہ قرضہ ہے ، زرمبادلہ کے ذخائر تیزی سے گررہے ہیں ۔
تازہ ترین