• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
محترم حامد میر صاحب کی گاڑی کے نیچے بم نصب کرنے کا واقعہ اس سلسلے کی پہلی کارروائی ہے اور نہ آخری۔ قبل ازیں درجنوں صحافی مارے جاچکے ہیں اور اب بھی ایک درجن سے زائد اینکرز ‘کالم نگاراور بعض میڈیا ہاؤسز نشانے پر ہیں ۔ مجھ سمیت کسی اخبار نویس کو علم نہیں کہ اس کا نام اس فہرست میں شامل ہے یا نہیں لیکن میڈیا کے خلاف اعلان جنگ تحریک طالبان پاکستان کی طرف سے باقاعدہ تحریری طور پر کیا گیا ہے ۔ مشتاق یوسف زئی صاحب نے ”دی نیوز“ میں اینکرز‘ کالم نگاروں اور میڈیاہاؤسز کے خلاف منصوبہ بندی کی رپورٹ شائع کردی تو میں اپنے ذرائع سے اس کی تصدیق میں لگ گیا اور متعدد ذرائع سے ان کی خبر کی تصدیق ہوگئی ۔ تحریک طالبان پاکستان کے ترجمان احسان اللہ احسان کا کہنا ہے کہ اہل سیاست کی طرح اہل صحافت کو بھی تین کیٹگریز میں تقسیم کیاگیا ہے اور تیسری کیٹگری میں آنے والوں کو کسی صورت نہیں چھوڑا جائے گا۔ فرماتے ہیں کہ طالبان نے بہت انتظار کیا اور بار بار میڈیا کو سمجھایا لیکن جو لوگ نہیں سمجھتے ‘ اب ان کو سبق سکھانے کا فیصلہ اعلیٰ سطح پر ہوچکا ہے۔ طالبان کویقین اور شکایت ہے کہ میڈیا بحیثیت مجموعی امریکہ اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے لئے استعمال ہورہا ہے ۔ میڈیا ہاؤسز کے بارے میں پاکستان کے اندر غیرملکی طاقتوں سے رقوم لینے کا جو پروپیگنڈا کیا گیا ہے ‘ طالبان کی اکثریت بھی اس پر یقین کرنے لگی ہے ۔ انہیں شکایت ہے کہ میڈیا ان کی سرگرمیوں کے بارے میں یکطرفہ رپورٹنگ کررہا ہے ۔ قبائلی علاقوں اور سوات وغیرہ کے بارے میں آئی ایس پی آر اور حکومت کا موقف تودیا جاتا ہے لیکن طالبان کا موقف الیکٹرانک میڈیا میں سامنے نہیں آتا۔ انہیں شکایت ہے کہ میڈیا بلوچستان کے چند درجن مسنگ پرسنز کا تو روز رونا روتا ہے لیکن خیبرپختونخوا اور قبائلی علاقوں کے سینکڑوں مسنگ پرسنز کا ذکر نہیں کرتا۔ طالبان کے ہاتھوں مظالم کا ذکر تو بڑھا چڑھا کر میڈیا میں کیا جاتا ہے لیکن ان کے اور ان کے حامیوں کے ماورائے عدالت قتل یا ہیلی کاپٹروں سے گرائے جانے پر واویلا نہیں کیا جاتا۔ ایک طالب رہنما نے خود مجھ سے کہا کہ تم لوگ اکبربگٹی کا تو روز ماتم کرتے ہو لیکن لال مسجد کے عبدالرشید غازی ‘دارالعلوم حقانیہ اکوڑہ خٹک کے مولانا نصیب اللہ خان اور سوات کے مولاناولی اللہ کابل گرامی کے بار ے میں خاموش ہو ۔ ان کی برسیاں مناتے اور نہ ٹاک شوز میں ان پر موضوع بحث ہوتے ۔ ان کے نزدیک میڈیا یہ اس وجہ سے کررہا ہے کہ نواب اکبر بگٹی سیکولر تھے جبکہ یہ لوگ علمائے دین تھے۔ طالبان کو شکوہ ہے کہ میڈیا اے این پی ‘ایم کیوایم ‘ بلوچ لبریشن آرمی ‘ سنی تحریک اور جماعت الدعوہ وغیرہ کو تو ان ناموں سے یاد کرتا ہے جو انہوں نے اپنے رکھے ہیں لیکن ہم نے اپنے لئے جو نام (تحریک طالبان پاکستان )رکھا ہے اس کی بجائے ہمیں دہشت گرد اور انتہاپسند جیسے ناموں سے یاد کرتے رہتے ہو۔ طالبان کے بقول ٹی وی چینل پرویز مشرف (جو آئین شکنی کا مجرم اور مفرور ہے) کے انٹرویوتو روزنشر کرتا ہے ۔اسی طرح ایم کیوایم ‘ اے این پی ‘ پیپلز پارٹی اور سنی تحریک جیسی جماعتوں جن کے بارے میں سپریم کورٹ فیصلہ دے چکی ہے کہ ان کے مسلح ونگ ہیں‘ کی تو میڈیا میں خوب آؤ بھگت ہوتی ہے لیکن جب طالبان کے رہنماؤں کے انٹرویو یا بیانات کی بات آتی ہے تو میڈیا عذر پیش کرتا ہے کہ پیمرا کی طرف سے پابندی ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ خلاف قانون قرار پانے والے بلوچ عسکریت پسند تنظیموں کے رہنماؤں کے انٹرویو تو بڑے اہتمام کے ساتھ نشر کئے جاتے ہیں لیکن جب طالبان کی بات آتی ہے تو میڈیا کہتا ہے کہ ان کی تنظیم خلاف قانون قرار دلوادی گئی ہے ۔ میڈیا کے ایک حصے کے خلاف طالبان کے اعلان جنگ کا محرک ملالہ یوسفزئی کا کیس بنا ۔ اس واقعے کے بعد طالبان کے ترجمان احسان اللہ احسان مجھ سمیت درجنوں صحافیوں کے ساتھ مسلسل رابطے میں رہے ۔ وہ شکوہ بھی کرتے اور متنبہ بھی کرتے رہے کہ میڈیا ان کے ساتھ زیادتی کررہا ہے ۔ شوریٰ کے فیصلے سے قبل انہوں نے ہمیں یہاں تک بتایا کہ میڈیا سے متعلق طالبان کا پیمانہ صبر لبریز ہورہا ہے ۔ ان کا کہنا یہ ہے کہ ملالہ یوسف زئی کو طالبان نے ہی مارا ہے لیکن اس بنیاد پر نہیں کہ وہ تعلیم حاصل کررہی تھی بلکہ بقول ان کے وہ امریکہ اور پاکستانی حکومت کے لئے طالبان کو بدنام کرنے کا ایک مہرہ بن گئی تھی ۔ وہ کہتے ہیں کہ جنوبی اور شمالی وزیرستان میں لڑکیوں کے ا سکول کھلے ہیں ۔ طالبان اگر تعلیم کی بنیاد پر بچیوں کو نشانہ بناتے تو پھر وہاں ایک ا سکول بھی کھلا نہ رہتا ۔ میڈیا کو چاہئے کہ جن وجوہات کی بنا پر ہم نے ملالہ کو نشانہ بنایا وہ ہمارے موقف اور ان دلائل کو سامنے لاتا لیکن میڈیا آج تک یہ غلط تاثر دے رہا ہے کہ ملالہ کو اس بنیاد پر نشانہ بنایا گیا کہ وہ تعلیم حاصل کررہی تھی ۔ انہیں گلہ ہے کہ ہمارے ہی طالبان جب سرحد کے اس پار یعنی افغانستان میں کارروائی کرتے ہیں تو پاکستانی میڈیا ان کو شاباش دیتا ہے لیکن ہم انہی بنیادوں پر جب پاکستان میں اقدام کرتے ہیں تو ہمیں دہشت گرد اور انتہا پسند کہا جاتا ہے ۔ یہ ہے میڈیا سے متعلق طالبان کے موقف اور شکایت کا خلاصہ ۔ اسے تحریر کرنے کا مطلب ہرگز یہ نہیں کہ میں اس سے متفق ہوں بلکہ جب بھی موقع ملا ‘ ان کے ان شکووں کے جواب میں اپنے دلائل بھی ان کے سامنے پیش کرتا رہا لیکن ان کے موقف اور دلائل کو تحریر کرنا اس لئے ضروری سمجھا کہ ہم اہل صحافت اور ریاستی اداروں کے لئے طالبان کو سمجھنا آسان ہوجائے ۔ سچ تو یہ ہے کہ جو کچھ اس وقت میڈیا کے ساتھ ہورہا ہے ‘ بڑی حد تک وہ اس کا ذمہ دار خود ہے ۔وہ ناسمجھی کی وجہ سے یا پھر ذاتی اور ادارہ جاتی مفادات کی وجہ سے وہ کچھ کررہا ہے کہ جس کی وجہ سے اس کے دشمن بڑھتے جارہے ہیں ۔ طالبان تو اب دشمن بنے ہیں لیکن ہم تو روز اول سے اپنے دشمن ہیں ۔ ہم میڈیا والوں کا المیہ یہ ہے کہ اینکر ‘ اینکر کا دشمن ہے‘ کالم نگار ‘کالم نگار کا دشمن ہے اور رپورٹر‘ رپورٹر کا دشمن ہے ۔ وہ طالبان کے ساتھ رابطے میں ہو ‘ سیاستدانوں کے ساتھ یا ریاستی اداروں کے ساتھ ‘ اپنے ہم پیشہ لوگوں کے خلاف ان کے کان بھرنا اپنا فرض اولین سمجھتا ہے ۔ طالبان کی نظروں میں اگر آج میڈیا کے بعض لوگ سی آئی اے یا آئی ایس آئی کے ایجنٹ ہیں تو خود اہل صحافت نے ان کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کیا ہوا ہے ۔ہمارے بعض اینکرز ‘ کالم نگاروں یا پھر رپورٹراگر آج لبرل‘ سیکولر ‘ امریکہ نواز یا بھارت نواز کے ناموں سے مشہور ہوگئے ہیں تو ان کے خلاف یہ فتوے دینے والے کوئی اور نہیں بلکہ اہل صحافت ہی ہیں ۔ اسی طرح اگر طالبان آج یقین کرنے لگے ہیں کہ بعض میڈیا ہاؤسز کو باہر سے پیسہ ملتا ہے تو یہ افواہیں کسی اور نے نہیں خود اہل صحافت کی طرف سے پھیلائی گئی ہیں ۔ جو حسداور جو بغض ہم اہل صحافت کی صفوں میں پایا جاتا ہے ‘ وہ اپنی مثال آپ ہے ۔ آج بھی صورت حال یہ ہے کہ کسی ٹی وی چینل کا رپورٹر مر جائے تو دیگر ٹی وی چینلز ان کے چینل کا نام لینے کی بجائے نجی چینل کا نام استعمال کرتے ہیں ۔ میڈیا کو اگر اپنی آزادی پیاری ہے اور وہ درپیش خطرات سے عہدہ برآ ہوناچاہتا ہے تو پہلی فرصت میں میڈیا سے وابستہ افراد کو انسانیت کا مظاہرہ کرنا ہوگا۔ ایک دوسرے کو ہاتھ دینا ہوگا۔ چھوٹے رپورٹر اور بڑے اینکر کی تفریق ختم کرنی ہوگی ۔ بڑے شہر اور چھوٹے قصبے کے رپورٹر کا فرق مٹانا ہوگا۔ لوگوں کے جذبات سے کھیلنے کی بجائے حقیقت کی بنیاد پر رائے زنی کی روش اپنانی ہوگی۔ حسد اور بغض کے جذبات کو دباکر مثبت مسابقت کی طرف آنا ہوگا اور سب سے بڑھ کر یہ کہ فتوے بازی کی روش ترک کرنا ہوگی۔ تاریخ کا سبق یہی ہے کہ اگر آج آپ دوسرے کے راستے میں گڑھا کھودوگے تو کسی نہ کسی دن آپ کو بھی اسی راستے سے گزرنا اور اسی گڑھے میں گرنا ہوگا۔
تازہ ترین