• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحریر:ڈاکٹر یحییٰ …لندن
راقم نے محترم پروفیسر مسعود اختر ہزاروی صاحب کے کالم کے جواب میں ایک کالم تحریر کیا تھا جو کہ 12ستمبر کے روزنامہ جنگ لندن میں چھپا۔ میرے اس کالم بعنوان ’’شناخت کی چوری احمدی موقف‘‘ کے جواب میں محترم پروفیسر صاحب کا ایک کالم ’’شناخت کی چوری شبہات کا ازالہ‘‘ 16ستمبر کے جنگ میں پڑھنے کا اتفاق ہوا خاکسار اسی کالم سے متعلق چند حقائق قارئین کے سامنے پیش کرنے چاہتا ہے-
(1) جہاں تک ’’چوری‘‘ والے اس گھسے پٹے الزام کا تعلق ہے تو ہم صرف اسی پر اکتفا کرتے ہیں کہ چوری تو صرف اسی چیز کی ہو سکتی ہے جو کہ کسی شخص یا گروہ کی ملکیت ہو۔ اسلامی تعلیم کے مطابق اسلام ہر کلمہ گو کا مذہب ہے۔ ہم احمدی کیونکہ کلمہ گو ہیں اس لئے اسلام ہی ہمارا مذہب ہے اور کسی بھی مذہبی ٹھیکہ دار کے کسی بھی سرٹیفکیٹ کی اسلام میں کوئی حیثیت نہیں۔ جیسا کہ اپنے گزشتہ کالم میں خاکسار نے یہ لکھا تھا کہ ’’دنیاوی کاروباروں میں ٹریڈ مارک کو حاصل کرنے کے لئے مختلف ادارہ جات موجود ہیں جو کہ مختلف کمپنیوں کو ٹریڈ مارک دیتے بھی ہیں لیکن مذہبی دنیا میں کوئی ادارہ سرے سے موجود ہی نہیں‘‘۔ محترم قارئین ہمارے اس دعویٰ کے جواب میں محترم پروفیسر صاحب نہ ہی کسی ادارے کا اور نہ ہی کسی ایسے مذہبی فرقے کا نام اپنے قارئین کو بتلا سکے۔
(2) محترم پروفیسر صاحب نے اپنے 8ستمبر کے مضمون میں یہ بھی بیان فرمایا تھا کہ’’نبی کریم ﷺ کے وصال مبارک کے کچھ ہی عرصہ بعد مسیلمہ کذاب نے اس شناخت کو چوری کرنے کی کوشش کرتے ہوئے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا‘‘۔ معزز قارئین حیرانی اس بات پر ہوئی ہے کہ محترم پروفیسر صاحب نے کیا وہ احادیث پڑھی ہی نہیں ہیں جن احادیث میں مسیلمہ کذاب کے بارے میں واضح طور پر یہ بیان کیا گیا ہے کہ جب اس نے نبوت کا جھوٹا دعویٰ کیا تو ہمارے پیارے نبی محمد عربی ﷺ نے اپنی زبان مبارک سے مسیلمہ کو ’’کذاب‘‘ قرار دیا۔
(3) اپنے گذشتہ کالم میں خاکسار نے یہ عرض کیا تھا کہ ’’حقیقت یہ ہے کہ 1953کی تحریک سمیت چند گنتی کے افراد ہیں جن کی جانیں اینٹی احمدیہ تحریکات میں گئی ہیں‘‘۔ قارئین ہماری یہ قول سدید پر مبنی تحریر محترم پروفیسر صاحب کو شاید اچھی نہ لگی اور انہوں نے وکی پیڈیا کا ایک عدد حوالہ بھی اپنے کالم میں درج کیا- محترم ہزاروی صاحب ہم نے آپسےکوئی مستند حوالہ پیش کرنےکی درخواست کی تھی نہ کہ وکی پیڈیا جیسا غیر مستند حوالہ کیونکہ وکی پیڈیا ایک ایسی ویب سائٹ ہے کہ دنیا کا کوئی بھی شخص اس کے کسی بھی صفحہ پرکسی بھی وقت کچھ بھی ایڈ یا ڈیلیٹ کر سکتا ہے- اسی لئے آپ نے جس صفحہ کا حوالہ اپنے کالم میں دیا تھا ہم نے بقلم خود ’’رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے تحقیقات فسادات پنجاب 1953‘‘ کی صفحہ اول کی وہ مستند تحریر وکی پیڈیا کے اسی صفحہ پر ایڈٹ کردی ہے جس کے مطابق دس ہزار نہیں بلکہ گنتی کے چند افراد ان فسادات میں جاں بحق ہوئے تھے-
محترم قارئین چونکہ پوائنٹ نمبر 4اور 5ملتا جلتا ہے اس لئے ہم ان دونوں کا جواب اکٹھا ہی عرض کئے دیتے ہیں- محترم پروفیسر صاحب نے اپنے اس کالم میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی آمد ثانی سے متعلق اپنے اور حقیقت میں تقریباً تمام بڑے بڑے فرقوں کے عقائد تحریر فرمائے ہیں۔ ’’مختصر یہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام (ا) نئے نبی نہ ہوں گے (2) نبی ہونے کے باوجود اپنی نبوت کا اعلان نہ کریں گے (3) دین محمدی کے پیرو ہوں گے‘‘۔ اس بارے میں ہم محترم پروفیسر صاحب کی خدمت میں محض اتنا ہی عرض کرتے ہیں کہ ہمیں مزید کچھ کہنے کی ضرورت ہی نہیں آئین پاکستان کی شق 260کے مطابق ہر مسلمان کے لئے ضروری ہے کہ وہ غیر مشروط طور پر اور ہر مفہوم میں آنحضرت ﷺ کو آخری نبی تسلیم کرے ہزاروی صاحب آپنے نزول عیسیٰ علیہ السلام سے متعلق ایسے ایسے عقائد اپنے اس کالم میں لکھ دیئے ہیں جن عقائد کی آئین پاکستان کسی مسلمان کو اجازت ہی نہیں دیتا- یاد رہے کہ فیصلہ آپ کا نہیں بلکہ آئین پاکستان کا چلے گا اور کیونکہ آپ حضرت حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کے بعد ان کو بعض شرائط کے ساتھ اور بعض مفہوم میں نبی مانتے ہیں اس لئے آئین پاکستان کی شق 260کی اس صریح خلاف ورزی کرنے کے باعث آپ سمیت وہ تمام فرقے جو ان عقائد کے مالک ہیں آئین پاکستان کی رو سے مسلمان نہیں ہیں-
تازہ ترین