• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جنابِ قمرزمان کائرہ عام انتخابات کے التوا کے حق میں ایک ایک ”دلیل“ اور ایک ایک ”جواز“ کو مسترد کر رہے تھے۔ امن و امان کی صورتحال؟ لیکن یہ 2008 میں بھی کب اطمینان بخش تھی۔ کراچی کے حالات ؟ تب بھی ایسے ہی تھے ، 18 اکتوبر (2007) کو محترمہ کی وطن واپسی پر سانحہ کار ساز ، جس میں 200 کے لگ بھگ لوگ مارے گئے ۔ محترمہ کی زندگی کے کچھ ایام باقی تھے سو وہ اس خوفناک کاروائی میں محفوظ رہیں اور بالآخر 27 دسمبر کو لیاقت باغ میں نشانہ بن گئیں۔ بلوچستان کے احوال ؟ لیکن وہاں 2008 میں بھی متشددانہ بائیکاٹ تھا۔
میزبان عثمان ملک نے اس تقریب کا فارمیٹ قدرے مختلف رکھا تھا۔ یہ وفاقی وزیرِ اطلاعات کی روایتی پریس بریفنگ نہیں تھی۔ ”اصغر خاں کیس کا فیصلہ اور آئندہ انتخابات “اس تقریب کا موضوع تھے ۔ لاہور کے سینئر مدیرانِ گرامی سٹیج پر مہمانِ خصوصی کے دائیں بائیں فروکش تھے اور سامنے کالم نگار اور تجزیہ نگار ۔ کائرہ صاحب کے خطاب سے قبل ڈاکٹر مہدی حسن ، عارف نظامی، مجیب الرحمن شامی، سلیم بخاری اور راشد رحمٰن نے اظہارِ خیال کیا۔ ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا تھا کہ انہوں نے 1989 میں ہی ان ریٹائرڈجرنیلوں کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت مقدمہ چلانے کی گزارش کی تھی۔ جناب عارف نظامی کو شکایت تھی کہ جن جرنیلوں نے جسدِ سیاست کو گھاوٴ لگائے وہ سپریم کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد بھی دندناتے پھرتے ہیں ، انہیں میڈیا کے ساتھ بدتمیزی میں بھی کوئی عار نہیں ہوتی۔ شامی صاحب کا کہنا تھا کہ گڑے مردے اکھاڑنے سے کیا حاصل ؟یہاں کسی کا ماضی بھی قائدِ اعظم کا ماضی نہیں تو پھر ماضی کو کریدنے کی بجائے کیوں نہ نظریں آئندہ انتخابات پر مرکوز کر دی جائیں۔ راشد رحمن کا استفسار تھا کہ 1970 کے الیکشن کے سوا کون سا الیکشن تھا جس میں maneuvering نہیں ہوئی۔ اور 1970 کے نتائج بھی کب تسلیم کئے گئے تھے ۔ انہیں خوشی تھی کہ ایک منتخب پارلیمنٹ اپنی مدت پوری کرنے جارہی ہے۔ اپوزیشن لیڈر (میاں نواز شریف) کے رویے کو مدبرانہ قرار دیتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ میثاقِ جمہوریت کی روح آج بھی موجود ہے ۔ ایک انگریز ی اخبار کے ایڈیٹر ججو ں اور جرنیلوں کے متعلق وہ الفاظ استعمال کر گئے جنہیں دہرانا اس لئے بھی مناسب نہیں کہ شامی صاحب کے کہنے پر انہوں نے یہ الفاظ واپس لے لئے تھے( اچھا ہوا ، ارشاد عارف صاحب کے کالم میں پروف کی غلطی کے باعث اصل لفظ کی بجائے ایک اور لفظ چھپ گیا،)
انتخابات کے بروقت انعقاد پر اصرار کرتے ہوئے دیگر دلائل کے علاوہ کائرہ صاحب ایک دلیل یہ بھی تھی کہ اتنے آزاد میڈیا ایسی طاقتور عدلیہ کے ہوتے ہوئے کون مائی کا لال الیکشن کے التوا کا سوچ بھی سکتا ہے ؟ ایوانِ صدر میں جنابِ زرداری کی موجودگی میں انتخابات کے آزادانہ اور منصفانہ انعقاد کے حوالے سے ان کا استدلال تھا کہ زرداری صاحب کی اصل طاقت حکومتی پارٹی کا سربراہ ہونا ہے ۔ ایک آزاد و خودمختار الیکشن کمیشن اور وفاق اور صوبوں میں حقیقی معنو ں میں غیر جانبدار و بااختیار نگران حکومتوں کے ہوتے ہوئے ایوانِ صدر کا مکین انتخابات پر کیسے اثر انداز ہو سکتا ہے؟ جناب کائرہ کی دلیل مضبوط تھی۔ بیسویں ترمیم سے آزاد اور خود مختار الیکشن کمیشن کے ساتھ بااختیار اور غیر جانبدار نگران حکومتوں کا آئینی اہتمام ہو گیا ہے۔ ادھر اٹھارہویں ترمیم نے ایوانِ صدر کے مکین کی حیثیت چودھری فضل الٰہی جیسی کر دی ہے ۔ البتہ دانشور وزیر کی اس بات سے اتفاق مشکل ہے کہ ایوانِ صدر کے مکین کو سیاست کرنے کا حق حاصل ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ صدارتی امیدواروں کو سیاسی جماعتیں نامزد کرتی ہیں ۔ صدر سیاسی عمل کے تحت منتخب ہوتا ہے اور ایک سیاسی ادارے (پارلیمنٹ ) لازمی حصہ ہوتا ہے۔ پھر وہ سیاست سے لاتعلق کیسے رہ سکتا ہے ؟ لیکن جنابِ کائرہ یہاں اس حقیقت کو نظر انداز کرگئے کہ سپیکر اور سینٹ چیئرمین کے انتخاب میں بھی یہی سب کچھ ہوتا ہے۔ وہ بھی سیاسی جماعت کے نامزد کردہ ہوتے ہیں۔ ایک سیاسی عمل کے ذریعے منتخب ہوتے ہیں اور ایک سیاسی ادارے کے سربراہ بھی۔ لیکن اس منصب پر پہنچنے کے بعد وہ اپنی پارٹی کے نہیں بلکہ پورے ہاوٴس کے کسٹوڈین ہوتے ہیں ۔ وہ اپنی پارٹی کی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں بھی شریک نہیں ہوتے۔ پارلیمانی نظام میں صدر اس بلندوبالا منصب پر فائز ہونے کے بعد جماعتی سیاست سے بالاتر ہو جاتا ہے کہ اب اس کا رول ”فادر لی فیگر “کا ہوتا ہے، وفاق کی علامت کے طور پر وہ سب کا سانجھا ہوتا ہے ۔ مسلحٰ افواج کے سپریم کمانڈر کی حیثیت بھی اس سے اسی امر کا تقاضا کرتی ہے۔ صدر کا منصب بلاشبہ سیاسی ہوتا ہے لیکن جماعتی سیاست سے بالاتر۔ دنیا بھر کے پارلیمانی دساتیر کی طرح 1973 کے آئین کا تقاضا بھی یہی ہے۔ اصغر خاں کیس کے فیصلے میں بھی یہی بات پوری تفصیل اور آئینی دلائل کے ساتھ موجود ہے۔ کہا جاسکتا ہے کہ اصغر خاں کیس تو انٹیلی جنس اداروں کی طرف سے سیاسی رہنماوٴں کو رقوم کی تقسیم کے حوالے سے تھا، سپریم کورٹ یہیں تک محدود رہتی لیکن معاف کیجئے ، اس کیس کے بنیادی کرداروں میں صدر غلام اسحق خاں بھی تھے ، چنانچہ اسکے فیصلے میں ایوانِ صدر کے آئینی رول کا تعین اور وضاحت کیونکر غیرضروری ہوسکتی ہے؟ ”سیاسی صدر “اور ”سازشی صدر“والی تھیوری کو بھی نرم سے نرم الفاظ میں خلطِ مبحث کے سوا کیا نام دیا جاسکتا ہے ؟ جنابِ کائرہ کا کہنا تھا کہ صدر سیاسی نہیں ہو گا تو سازشی ہو گا، ماضی میں میں منتخب حکومتیں جس کا نشانہ بنتی رہی ہیں لیکن جنابِ فاروق لغاری بھی تو سیاسی صدر تھے اور پھر خود پیپلزپارٹی والوں کے بقول وہ سازشی صدر بن گئے ۔ جنابِ کائرہ کا دعوٰی تھا کہ ایوانِ صدر کا موجودہ مکین اس عرصے میں جمہوری اداروں کے خلاف کسی سازش کا حصہ نہیں بنا ۔ وزیرِ موصوف کی اس بات پر ، ہمیں یقین ہوا ، ہم کو اعتبار آیا لیکن پنجاب میں فروری 2009 کے گورنر راج کے حوالے سے کیا کہا جائے گا؟ یہ سارا منصوبہ کہا ں بنا؟ اور اس کی منظوری کس نے دی؟
کامران خان کے پروگرام میں ایک سوال تھا ، کیا آئندہ انتخابات میں پیپلز پارٹی کی اکثریت کی صورت میں جنابِ زرداری وزیرِ اعظم بن سکتے ہیں ؟ جنابِ کائرہ کا جواب تھا کہ آئین میں حوالے سے شاید کچھ پابندیاں ہیں۔ یقینا معاملہ ایسا ہی ہے ۔ آئین کے مطابق منصب ِ صدارت ان مناصب میں آتا ہے کہ جہاں سے ریٹائرمنٹ کے بعدبھی دو سال تک عملی سیاست میں حصہ نہیں لیا جاسکتا تو پھر ایوانِ صدر میں رہتے ہوئے سرگرم سیاست کیسے کی جاسکتی ہے؟ (یہی معاملہ صوبائی گورنروں کا بھی ہے)۔ جنابِ کائرہ کو گِلہ تھا کہ چیف جسٹس نے حامد میر کو گلدستہ کیوں بھیجا جب کہ ان کی وزارت کے خلاف حامد کا ایک کیس سپریم کورٹ میں زیرِ سماعت ہے ۔ وہ اس حوالے سے ”ججوں کے اعلیٰ کنڈکٹ “ بات کر رہے تھے ۔ حیرت ہے کہ وہ جمہوریہ کی علامت اور مسلح افواج کے سپریم کمانڈر کے اعلیٰ کنڈکٹ کی ضرورت محسوس نہیں کرتے۔
تازہ ترین