• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان تحریک انصاف کی سرکردگی میں ایک ماہ قبل بننے والی نٓئی منتخب حکومت نے منگل کے روز ’’فنانس ایکٹ 2018ء‘‘ میں ترمیم کی صورت میں جو ’’ضمنی‘‘ یا ’’منی‘‘ بجٹ پیش کیا وہ کئی حوالوں سے ناگزیر بھی تھا جبکہ وفاقی وزیر خزانہ اسد عمر کا یہ کہنا ہے کہ موجودہ حکومت کے پاس ’’انتظار کرو اور دیکھو‘‘ کی پالیسی کا وقت نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ بجٹ خسارہ 1800 ؍ارب روپے سے بڑھ کر 2700؍ارب روپے ہونے کا خدشہ تھا۔ مذکورہ وضاحت سے قطع نظر، حکومتوں کا کام یہ دیکھنا بھی ہوتا ہے کہ انکی اپنی ترجیحات کے مطابق ملکی معیشت کو چلانے کیلئے کہاں سے راستے نکلیں گے؟ کاروبار حکومت کیلئے کیا وسائل درکار ہونگے؟ مہنگائی سے بچنا ممکن نہ بھی ہوتو اسے کس طرح کنٹرول میں رکھا جاسکتا ہے؟ اس توازن کو قائم رکھنا ہی اصل گورننس ہے۔ نئی حکومت کو اپنے معاشی و سماجی پروگرام کی طرف بڑھنے کیلئے جو بنیادی اقدامات درکار تھے، ضمنی بجٹ انکا حصہ معلوم ہوتا ہے۔ تاہم اسکے عام لوگوں پر جو اثرات ہونگے انکے سلسلے میں پوری طرح محتاط رہنا ہوگا۔ وزیر خزانہ نے قومی اسمبلی میں منگل 18؍ستمبر کو فنانس سپلیمنٹری (ترمیمی) بل 2018ء کی صورت میں جو بجٹ تجاویز پیش کیں انکا مقصد 180؍ارب روپے کے لگ بھگ اضافی ریونیو کا حصول ہے۔ جس قسم کی صورتحال میں ضمنی بجٹ پیش کیا گیا، اس میں اضافی محاصل کیلئے پہلا ہدف وہ اشیاء بنتی ہیں جو سامان تعیش کے زمرے میں آتی ہیں۔ لہٰذا سگریٹ، موبائل فون، کاسمیٹک کا سامان، پنیر اور بڑی گاڑیاں مہنگی کردی گئی ہیں۔ 312 نئی ٹیرف لائنز (درآمدات) پر ریگولیٹری ڈیوٹی لگائی گئی ہے جبکہ 295ٹیرف لائنز (درآمدات) پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں 5سے 10فیصد اضافے کی تجویز دی گئی ہےبرآمدات میں اضافے کے اقدامات بھی کئے گئے ہیں جن میں مقامی خام مال پر ریگولیٹری ڈیوٹی میں کمی اور برآمدی صنعت کو ریگولیٹری ڈیوٹی میں 5؍ارب روپے کا ریلیف دینا شامل ہے۔ پیٹرولیم ڈیولپمنٹ لیوی میں کیا گیا 200؍ارب کا اضافہ واپس لینے سے بھی پیداواری لاگت کو بڑھنے سے روکنے اور برآمدی اشیاء کو بیرونی منڈی میں مسابقت کے قابل بنانے میں مدد ملے گی۔ کسانوں کو سستی کھاد فراہم کرنے اور این ایل جی پر کسانوں کو 50فیصد سبسڈی دینے کی تجاویز اچھی ہیں۔ تنخواہ دار افراد کو سابق حکومت کی طرف سے دی گئی 12؍لاکھ روپے آمدنی پر ٹیکسوں کی چھوٹ ختم ہونے کے بعد ان پر لاگو ٹیکس کی سابقہ صورتحال بحال ہوگئی ہے اور دو لاکھ سے زائد ماہانہ آمدن پر ٹیکس میں اضافہ کردیا گیا ہے جو تنخواہ دار افراد کیلئے 25فیصد جبکہ غیرتنخواہ دار افراد کیلئے 29فیصد ہوگا۔ دیامیر بھاشا اور مہمند ڈیم کے فنڈ میں جمع کرائی جانیوالی رقوم کو ٹیکس سے مستثنٰی کرنے سے آبی ذخائر کے ان منصوبوں کو بروئے کار لانے میں مدد ملے گی جو ملک اور عوام کی بقاء کیلئے ناگزیر ہیں۔ وزیر خزانہ کا یہ بیان حوصلہ افزاء ہے کہ ٹیکسوں کا نظام درست کرنے کیلئے مربوط پلان چند ہفتوں میں سامنے آجائے گا ۔ وزیر اعظم، وزراء، گورنروں اور ارکان پارلیمان سمیت سیاستدانوں کو حاصل مراعات پر ٹیکس کی چھوٹ ختم کرنے کا اعلان بھی کردیا گیا ہے جبکہ غریب عوام کیلئے صحت کارڈ کے اجراء سمیت کئی خوش آئندہ عملی اقدامات جلد متوقع ہیں۔ ای او بی آئی پنشروں کی پنشن میں دس فیصد اضافے کی تجویز بہت سے گھروں میں خوشی لائے گی۔ نان فائلرز کیلئے گاڑیوں اور جائیدادوں کی خرید و فروخت محدود کرنے کے سابقہ حکومت کے فیصلے کو واپس لینے کے حوالے سے ماہرین معیشت کے نقطہ نظر کو ضرور سامنے رکھا جانا چاہئے۔ ٹیکس تجاویز سے پالیسیوں کا واضح رخ نظر آرہا ہے جن کا مقصد امیروں سے زیادہ ٹیکس حاصل کرنا اور غریبوں کی مدد کرنا ہے۔ اس بات کو بہر طور یقینی بنایا جانا چاہئے کہ سی پیک منصوبہ جوں جوں آگے بڑھے، نئی صنعتوں کی صورت میں ملکی ترقی کی نشانیاں اور مواقع روزگار ظاہر ہوتے نظر آئیں۔ وطن عزیز کے غریبوں کے حالات اس وقت جس مقام پر نظر آرہے ہیں، ان میں جلد بہتری نظر آنا ضروری ہے۔

تازہ ترین