• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اب کہاں لذتِ آبِ سندھو

ریت سے کیسے زباں تر ہو گی

دریا خود اداس ہیں ان کا دامن خالی ہے۔ وہ بستیاں غم زدہ ہیں جو دریا کنارے رفتہ رفتہ آباد ہوئی تھیں۔ کھیتیاں سوکھ رہی ہیں۔ کسانوں ہاریوں کے چہرے مرجھارہے ہیں۔ آسمانوں سے جو پانی برستا ہے وہ تالابوں،حوضوں، ذخیروں کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے بغیر چاہے بھی انسانی آبادیاں تباہ کرتے بحیرۂ عرب میں جا گرتا ہے۔ چولستان۔ تھر کے صحرائوں میں ریت طاقت ور ہورہی ہے۔ اللہ کی خوشنودی کا پیغام لے کر آنے والے بچے سوکھ رہے ہیں۔ پچاس سال ہونے کو آئے۔ ایک صدی نے کائنات دوسری صدی کے حوالے کردی۔اللہ کے نائب حضرت انسان نے زمین کو اور حسن عطا کردیا۔ زندگی کو اور آسان کردیا۔ ترقی کے یہ نسخے عام ہیں جو قوم چاہے انہیں اپناکر اپنے ملک کو آگے لے جاسکتی ہے۔ قومیں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر پہاڑ۔ صحرا سر سبز کررہی ہیں۔ دریائوں پر پل باندھے جارہے ہیں۔ چھوٹے بڑے ڈیم تعمیر کیے جارہے ہیں۔

اس میں سب سے زیادہ کمال انجینئرنگ کا ہے۔ اب تو انجینئرنگ کی اتنی شاخیں دریافت ہوگئی ہیں کہ کائنات کے سارے اسرار دھیرے دھیرے کھلتے جارہے ہیں۔ ایک یہ جنوبی ایشیا ہے۔ اور وہ بھی اسلامی جمہوریہ پاکستان۔ جہاں پہلے ایک دو انجینئرنگ یونیورسٹیاں تھیں۔ اب لا تعداد ہیں۔ مکینیکل انجینئرنگ سے اب جینٹک انجینئرنگ تک پڑھائی جارہی ہے۔ہر سال نہ جانے کتنے انجینئرز میدان میں اُترتے ہیں۔لیکن ایک ڈیم کی فکر ہمارے فاضل چیف جسٹس صاحب کو ہے۔ وہ پورے خلوص سے قوم کو ولولۂ تازہ دے رہے ہیں۔فنڈز اکٹھے کیے جارہے ہیں۔ بہت عرصے بعد قوم میں ایک جوش اور جذبہ پایا جاتا ہے۔

ڈیم بنانا ججوں کا کام ہے نہ سیاستدانوں کا نہ قوم پرستوں کا نہ علماء کا اور نہ ہی میڈیا کا۔ یہ کام ہے انجینئروں کا۔ وہ نہ جانے کہاں ہیں۔ آرام کررہے ہیں۔ یا ڈر رہے ہیں۔ یا انہیں اس سلسلے میں تلخ تجربات ہوچکے ہیں۔ انجینئروں کی ایک ملک گیر ایسوسی ایشن بھی موجود ہے۔ بہت فعال۔ منظّم۔ بہت سے اہم اور حساس مسائل پر ان کی تحقیقی رپورٹیں بھی ہیں۔ ٹھوس تجاویز بھی ہیں۔ ان کو آگے آنا چاہئے۔ یہ ملک کی زندگی اور موت کا سوال ہے۔ان کے بیٹے بیٹیوں۔پوتوں پوتیوں۔ نواسوں نواسیوں کو بھی پیاس ستارہی ہوگی۔ اللہ نہ کرے ان کے جوان ہونے تک کیپ ٹائون کی طرح یہاں بھی پانی کی راشن بندی ہوجائے۔

یہ سب مانتے ہیں پانی کی قلت ہے۔ دریا سوکھ رہے ہیں۔ بھارت اپنی آئندہ نسلوں کی فکر کرتے ہوئے ہمارے حصّے کے پانی پر بھی تسلّط جماتا جارہا ہے۔ لیکن ہمیں نہ موجودہ نسل کی فکر ہے نہ آئندہ کی۔ ہمیں اپنے حصّے کے جتنے ڈیم بنانے تھے وہ بھی پچھلی نصف صدی میں نہیں بنائے۔ پانی بھی ضائع ہوتا رہا۔ وقت بھی ۔ یہ تسلیم کرتے ہیں کہ بارشوں کا پانی سیلاب بلا بن جاتا ہے۔ ہم اسے ذخیرہ نہیں کرپاتے۔ لیکن جب ڈیم کی بات ہوتی ہے تو چھوٹے صوبوں سے احتجاج شروع ہوجاتا ہے۔ یقیناً ان کے موقف میں بھی دلائل ہیں۔ کئی سیمیناروں میں ۔ کتابوں میں تفصیل سے بتایا گیا ہے۔ ان صوبوں سے وزیر اعظم بھی آئے صدر بھی۔ انہوں نے پانی محفوظ کرنے کے کسی متبادل ذخیرے کا بھی اہتمام نہیں کیا۔ صوبائی اسمبلیوں سے اکثریت کی بنیاد پر قرار دادیں منظور کروادی گئیں۔ لیکن عوام کی اکثریت کے ان نمائندوں نے پانی ذخیرہ کرنے کے اور کیا انتظامات کیے۔

فوجی حکومتیں آتی رہیں۔ جنرل ایوب خان کے دَور کے بعد کوئی بڑا ڈیم نہیں بنا۔ یا یوں کہہ لیجئے کہ سقوطِ ڈھاکہ کے بعد ہم اتنے غم زدہ رہے ہیں کہ اس طرف توجہ ہی نہیں دے سکے۔ آمروں کا ہر لفظ آئین اور قانون ہوتا ہے۔ وہ جو چاہے کر گزرتے ہیں۔ مقبول ترین لیڈر۔ منتخب وزیرا عظم کو پھانسی دے ڈالتے ہیں۔ اس وقت انہیں سندھ کے احتجاج کا ڈر نہیں ہوتا۔ لیکن وہ بھی یکے بعد دیگرے کوئی بڑا ڈیم نہیں بناسکے۔ اتفاق رائے کی تلاش میں رہے۔ آئین توڑتے وقت کیا اتفاق رائے لیا جاتا ہے۔

اب اکیسویں صدی کی دوسری دہائی ختم ہونے میں دو سال رہ گئے ہیں۔ زمانہ بہت آگے نکل گیا ہے۔ جذبات کی جھاگ بیٹھ جاتی ہے۔ دنیا حقیقت پسندی سے کام لے رہی ہے۔ ارضی حقائق کو اہمیت دی جاتی ہے۔ زندگی کا بجٹ میسر نعمتوں کی بنیاد پر بنتا ہے۔ سندھ۔ بلوچستان ۔ کے پی ۔ پنجاب۔ آزاد جموں کشمیر۔ گلگت بلتستان ۔ فاٹا۔ سب کی ضرورت پانی ہے۔ کشمیر۔ گلگت میں تو اللہ کا فضل ہے چشمے بہہ رہے ہیں۔ مگر وہاں بھی چھوٹے چھوٹے ڈیم بنانے کی ضرورت ہے۔

ہمیں انکار کی کیفیت State of Denial سے نکل کر اثبات کی خوشگوار دنیا میں آنا ہوگا۔ جمہوریت کے لیے قربانیاں پنجاب۔ کے پی ۔ سندھ ۔ بلوچستان سب نے دی ہیں۔ لیکن سندھ اور بلوچستان کی جمہوری جدو جہد ہمیشہ سر فہرست رہی ہے۔ ان دونوں نے بہت قیمتی انسان کھوئے ہیں۔ پانی کی قلت کا سامنابھی ان دونوں صوبوں کو زیادہ ہے۔ بنجر زمینیں بھی یہاں زیادہ ہیں۔ ان دونوں صوبوں کے انجینئروں کو آگے آنا چاہئے۔ پنجاب ۔ کے پی ۔ آزد جموں و کشمیر۔ گلگت۔ کے انجینئروں کے ساتھ مل بیٹھ کر ٹیکنیکل بنیادوں پر بتانا چاہئے کہ پانی کا ذخیرہ کرنے کے لیے ایسا کیا انتظام ہو کہ پاکستان کا فائدہ ہو۔ اس کو صوبائی اختلافات اور تعصّبات کی نذر نہ کیا جائے۔

بہت لڑائیاں ہوچکیں۔ بہت قربانیاں دی جاچکیں۔ بہت لاشیں گر چکیں۔ انکار کی کیفیت سے باہر نکلیں۔ اور مثبت امکانات کی نشاندہی کریں۔

میں بھی اس موضوع پر ٹیکنیکل اعتبار سے کچھ کہنے کا حق نہیں رکھتا۔ نہ ہی فاضل جج حضرات۔ یہ مسئلہ انجینئروں کا ہے۔ پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بڑے بڑے انجینئر دیے ہیں جنہوں نے امریکہ ۔کینیڈا۔ برطانیہ۔ سعودی عرب۔ افریقہ میں بڑے بڑے پل ڈیم اپنی نگرانی میں بنوائے ہیں۔ وہ اس پر بہتر رائے دے سکتے ہیں ۔ پیسہ جمع ہورہا ہے۔ یہ جہاں بھی مناسب ڈیم بنے گا اس کی تعمیر میں کام آئے گا۔ میڈیا والے بھی اگر سیاستدانوں اور قوم پرستوں کی بجائے انجینئرز اور آب پاشی کے ماہر ین کو بلائیں ۔ ملک کے مفاد میں دو تین دن ریٹنگ کی قربانی دے دیں۔ تو لوگوں کے سامنے صحیح صورتِ حال آئے وہ ایک دو دن ڈیم کی تعمیر کے غلغلے سے خوش ہوتے ہیں۔ لیکن جب ایاز لطیف پلیجو اور سندھ سے دوسرے سرگرم دانشور اس کی مخالفت کرتے ہیں تو وہ پریشان ہوجاتے ہیں۔ دریا اپنی جگہ سوکھتے رہتے ہیں۔سمندر کا کھارا پانی ٹھٹھہ بدین کے کھیتوں میں گھس آتا ہے۔ شہروں کی آبادیاں بڑھ رہی ہیں۔ پینے کا صاف پانی کم ہورہا ہے۔ منرل واٹر فراہم کرنے والی کمپنیاں صورتِ حال سے اربوں روپے کمارہی ہیں۔

وقت آگیا ہے کہ اب ہم اپنے مسائل زمینی حقائق۔ سائنس۔ ٹیکنالوجی کی بنیاد پر حل کریں ۔ ایک دوسرے کے خلاف تلواریں سونت کر کھڑے نہ ہوں۔ نہ ہی غدّاری اور ملک دشمنی کے سرٹیفکیٹ بانٹیں۔ یہ خالصتاً معاشی ، اقتصادی، سائنسی، ٹیکنیکل مسئلہ ہے۔ اسے انہی بنیادوں پر حل کرنا چاہئے۔

انجینئر حضرات و خواتین آگے آئیں اور بتائیں ۔ پانی کے ذخیرے کہاں بہتر بن سکتے ہیں۔ جس سے ملک کے کسی بھی حصّے کو نقصان نہ ہو۔ کیونکہ ہم پہلے ہی بہت نقصانات کا سامنا کرچکے ہیں۔ اور یہ بھی جائزہ لیں کہ چھوٹے بڑے ڈیم سی پیک کا حصّہ کیوں نہیں بن سکتے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین