• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

دنیا بھر میں ہر سال21ستمبر عالمی یوم امن کے طور پر منایا جاتا ہے جس کا مقصد لوگوں میں امن کی اہمیت اور جنگ کے منفی رجحانات کے بارے میں آگاہی فراہم کرنا ہے، یہی وجہ ہے کہ میں نے ضروری سمجھا کہ عالمی امن کے دن کے موقع پر نئے پاکستان کے منجھے ہوئے تجربہ کار وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی کے ہمسایہ ملک افغانستان کے پہلے غیر ملکی دورے کے دوران عظیم افغان رہنما پروفیسر برہان الدین ربانی کے صاحبزادے اور افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی کے ساتھ امن مذاکرات اور باجوہ ڈاکٹرائین کی کامیابی کے اعتراف میں برطانوی تھنک ٹینک کی رپورٹ پر اپنے خیالات کا اظہار کروں، اسے ایک اتفاق ہی کہا جاسکتا ہے کہ موجودہ افغان وزیر خارجہ صلاح الدین ربانی کے والد محترم کی سالگرہ اور یوم شہادت بھی آج ہی کے دن منایا جا رہا ہے۔ میں بارہا مواقع پر اپنے اس موقف کا اظہار کرچکا ہوں کہ تشدد اور نفرت کی جنگوں سے پاک ایک پر امن معاشرہ ہر انسان کا بنیادی حق ہے اور انسانی تاریخ گواہ ہے کہ ہمیشہ وہی قومیں ترقی کی دوڑ میں آگے بڑھتی ہیں جنہوں نے اپنے لوگوں کے بنیادی حقوق کی حفاظت کی اور ان کو اپنے وطن کو ترقی یافتہ اقوام کی فہرست میں شامل کر نے کیلئے سازگار ماحول فراہم کیا۔ میں سمجھتا ہوں کہ امن اور علاقائی استحکام کا چولی دامن کا ساتھ ہے اور پر امن ماحول کا قیام بھی تب ہی ممکن ہے جب ہمارے اپنے آس پاس کے رہنے والے ہمسایوں کے ساتھ اختلافات کم سے کم ہوں۔ افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے کبھی اس حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا بالخصوص ہمارے قریبی ہمسائے افغانستان کیساتھ سفارتی تعلقات روز اول سے کشیدگی کا شکار رہے۔ نئے پاکستان کے وزیراعظم عمران خان دہشت گردی کے خاتمے کیلئے ایک ٹھوس قومی حکمت عملی کا تعین کرنے میں سنجیدہ لگتے ہیں، انکی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ جب تک افغانستان میں پائیدار امن قائم نہیں ہو جاتا پاکستان کو بھی مسائل کا سامنا کرنا پڑتا رہیگا، اسی وجہ سے انہوں نے حکومت میں آتے ہی پہلا غیرملکی سفارتی دورہ وفاقی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی زیر قیادت افغانستان روانہ کیا جس سے ثابت ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت کی ترجیحات میں علاقائی امن و استحکام سرفہرست ہے، دونوں ممالک نے چین کی موجودگی میں ایک سہ فریقی کانفرنس منعقد کرانے پر آمادگی کا اظہار کیا اور مستقبل میں اچھے تعاون کی یقین دہانی کرائی۔ افغانستان میں امریکہ کی آمد کو سترہ سال مکمل ہوگئے ہیں لیکن بدستور ناکامیوں کا ملبہ پاکستان پر ڈالنے کا عمل جاری ہے۔ ابھی ایک عالمی ادارے رائل یونائٹڈ سروسز انسٹی ٹیوٹ کی رپورٹ میری نظر سے گزری ہے جس میں اعتراف کیا گیا ہے کہ پاکستان کی عسکری افواج کی باجوہ ڈاکٹرائین نہایت کامیاب اور موثر ثابت ہوئی ہے، ماضی کی نسبت آج کا پاکستان عالمی دبائو برداشت کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے، پاکستان اس پوزیشن میں آگیا ہے کہ وہ دنیا سے ڈومور کا مطالبہ کرے۔ رپورٹ میں مختلف امریکی عسکری افسران کا حوالہ دیا گیا ہے کہ نائن الیون کے بعد پاکستان کی جانب سے حمایت کے بغیر افغانستان پر قبضہ جمانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ میری نظر میں عالمی برادری کو سمجھنا چاہیے کہ قیام امن کی قیمت قربانیوں کی صورت میں چکانا پڑتی ہے، پاکستان اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ ہماری بہادر افواج نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر وطن عزیز کے قیام امن میں ایک لازوال کردار ادا کیا ہے اور ہماری سرحدوں کو محفوظ بنایا ہے، افغانستان کو بھی قیام امن کیلئے الزام تراشی کی بجائے اپنی سرحدوں کو محفوظ بنانے کی کوشش کرنی چاہیے۔ اگر تاریخ کے جھروکوں میں جھانکا جائے تو آج 20ستمبر کو افغانستان کے مرحوم لیڈر اور سابق صدر پروفیسر برہان الدین ربانی کی سالگرہ بھی ہے اور برسی بھی، عظیم افغان رہنما نے سوویت جارحیت کے خلاف کامیاب مزاحمت کی ایک تاریخ رقم کی، انہوں نے سوویت افواج کے انخلا کے بعد آزاد ہونیوالے افغانستان کی بطور صدر قیادت کی، طالبان کے دارالحکومت کابل پر قبضے کے باوجود عالمی برادری بشمول اقوام متحدہ انہیں افغانستان کا قانونی صدر مانتی تھی جنہوں نے شمالی اتحاد کے پرچم تلے تمام طالبان مخالف گروہوں کو متحد کیا، نائن الیون کے بعد جب طالبان راج کا خاتمہ ہوا تو انہوں نے ایک بار پھر کابل پہنچ کر مسند صدارت سنبھالا، بعد ازاں حامد کرزئی افغانستان کے صدر بن گئے تو انہوں نے افغانستان نیشنل فرنٹ کے سربراہ کی حیثیت سے اپوزیشن کا کردار ادا کیا۔ 20ستمبر 2011ء کوانکی 71ویں سالگرہ کے موقع پر برہان الدین ربانی سے ملاقات کیلئے طالبان جنگجوؤں کا ایک وفد انکی رہائش گاہ پہنچا تو انہوں نے پرتپاک استقبال کیلئے اپنے بازو کھول دئیے لیکن وہ نہ جانتے تھے کہ سفاک مہمان اپنی پگڑی میں بم چھپا کر لایا ہے اور یوں ایک خوفناک خود کش حملے کے نتیجے میں انکی سالگرہ کا دن یومِ شہادت میں تبدیل ہوگیا۔ افغان پارلیمان نے سابق افغان صدر کیلئے شہید ِامن کا خطاب تجویز کیا جو افغان صدر حامد کرزئی نے منظور کرلیا۔ آج اس افسوسناک سانحہ کو بیتے سات سال گزر گئے ہیں، اپنے دشمن سے انتقام لینا افغان قوم کا خاصا سمجھا جاتا ہے لیکن صلاح الدین ربانی نے اپنے بہادر باپ کی شہادت کے فوراً بعد طالبان سے امن قائم کرنے کے عزم کا اعادہ کیا، افغانستان میں نیشنل یونیٹی کی حکومت قائم ہونے کے بعد افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے صلاح الدین ربانی کو بطور وزیر خارجہ نامزد کیا گیا تو افغان پارلیمان نے بھی انہیں اعتماد کے ووٹ سے نواز دیا۔ رواں برس افغانستان میں قیام امن کیلئے برہان الدین ربانی کے خواب کی ایک جھلک عید الفطر کے موقع پر عارضی جنگ بندی کی صورت میں سامنے آئی جب افغان طالبان، حکومت اور عوام نے ایک ساتھ عید کی خوشیاں منائیں۔ پروفیسر برہان الدین ربانی مذاکرات کی اہمیت کو بخوبی سمجھتے تھے کہ بندوق کی لڑائیوں نے ہمیشہ نفرتوں کو جنم دیا اور نفرتوں کو پروان چڑھانے والے معاشرے کبھی ترقی نہیں کرسکتے، یہی وجہ ہے کہ وہ بیک وقت افغان طالبان اور عالمی برادری سے رابطے استوار کرنے میں مصروف تھے لیکن شر پسند عناصر نے انہیں مہلت نہ دی۔ رواں برس انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کے 70سال پورے ہو رہے ہیں، اس حوالے سے اقوام متحدہ نے 2018ءکے انٹرنیشنل پیس ڈے کا موضوع رائٹ ٹو پیس یعنی امن ایک بنیادی حق تجویز کیا ہے،آج امن کا عالمی دن مناتے ہوئے دونوں ممالک کو سمجھنا چاہیے کہ کچھ عالمی قوتیں اپنے مذموم مقاصد کی تکمیل کی خاطر پاکستان اور افغانستان میں امن قائم ہوتے نہیں دیکھنا چاہتیں ،انہی قوتوں کے ایما پرماضی میں پاکستان اور افغانستان کے دوطرفہ تعلقات میں کھچاؤ رہا اور پاکستان کی قربانیوں کا اعتراف نہیں کیا گیا۔ آج عظیم افغان رہنما پروفیسر برہان الدین ربانی ہمارے درمیان موجود نہیں لیکن انکے صاحبزادے اور موجودہ افغان وزیرخارجہ اپنے عظیم باپ کے نیک مقصد کے حصول کیلئےپُرعزم ہیں، ہمیں امید کرنی چاہئے کہ تجربہ کار وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی افغانستان کے شہیدِ امن کے صاحبزادے کے بھرپور سفارتی تعاون کی بدولت خطے کو امن کی راہ پر گامزن کرنے میں اپنا بھرپور کردار ادا کرینگے۔

تازہ ترین