• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

محرم الحرام اسلامی کیلنڈر کاپہلا مہینہ ہونےکے ساتھ ساتھ عالم اسلام کےلیے کئی حوالو ں سے قابلِ احترام ہے۔ کربلا کی سبق آموزیادیں ہمارے دلوں کو مغموم کر دیتی ہیں جس میں ظلم و ستم کے ایسے پہاڑ توڑے گئے کہ آج تک وہ واقعات جان کرجہاں دل دہل جاتے ہیں وہاں ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ حق کے لیے کھڑا ہونا اور پھر اپنی جان تک کی پروا نہ کرنا کتنی بڑی قربانی ہے۔ بظاہر یہ ایک مشکل کام ہے لیکن جب آپ میں ایمان کی قوت ہو اور آپ کی تربیت ایسے گھرانے میں ہوئی ہو جہاں علم کا دروازہ بھی ہو اور علم کا شہر بھی، فاطمہؓکی گود بھی ہو اور ناناؐ کے کندھے اور پیٹھ کی سواری بھی تو پھر بہادری اور قربانی کی ایسی ہی مثالیں قائم کی جاتی ہیں جو حضرت امام حسینؓ نے کربلا کے میدان میں‘ سجدے میں سر کٹوا کر کیں۔ نواسۂ رسول سیدنا امام حسینؓ کے ساتھ ساتھ ان کے 72 جانثاروں کی قربانی بھی بہت عظیم ہے۔ آپؓ خود تو اپنے اصولی موقف پر ڈٹے رہے لیکن اپنے ساتھیوں کو بار بار کہتے رہے کہ اگر وہ جانا چاہیں تو جا سکتے ہیں۔ اس کے لیے انہوں نے اپنے ساتھیوں کو یہاں تک پیشکش کی کہ جب رات کے اندھیرے گہرے ہوں، روشنیاں گُل کر دی جائیں اور انہیں جاتے ہوئے کوئی دیکھ بھی نہ سکے تو وہ جا سکتے ہیں۔اپنی زندگی کے وہ خود مالک ہیں وہ جیسے چاہیں اپنی زندگی گزاریں‘ وہ قطعاً پابند نہیں کہ وہ بھی اصولی موقف کی خاطر نواسہ رسولؐ کے ساتھ کھڑے ہو کر دکھ و اذیت برداشت کریں۔ ان جانثار ساتھیوں کو بار بار کہا گیا کہ وہ رات کے اندھیرے میں جا سکتے ہیں تاکہ جاتے ہوئے انہیں شرمندگی کا بوجھ بھی برداشت نہ کرنا پڑے لیکن ایسا نہیں ہوا اور حضرت امام حسینؓ کے ساتھ ان کے قافلے کے سارے لوگ قوتِ ایمانی سے استقامت کی دیوار بن کر کھڑے رہے، ہو سکتا ہے کہ جانے والے مزید دس، بیس یا پچاس سال یا شاید اس سے بھی زیادہ جی لیتے لیکن آج ان کا نام ان بہادروں کے ساتھ نہ لیا جاتا جنہیں یقیناً اللہ جل شانہ کے ہاں عظیم مقام حاصل ہے۔آج ہم بطورمسلمان بہت سی مشکلات میں گھرے ہوئے ہیں۔ قدرت نے ہمیں سب کچھ دے رکھا ہے لیکن ہم چھوٹے چھوٹے مفادات کی خاطرگروہوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم کربلا کے میدان کی اُس قربانی کو اپنےلیے مشعل راہ بناتے ہوئےاپنی زندگی اس واقعےسے حاصل سبق کے تحت گزاریں، ملک اور دین کےلیے وہ کچھ کریں جس کا وقت متقاضی ہے۔ مشرق سے مغرب تک تمام مسلمانوں کو اپنی مشکلات کو آسانی میں بدلنےکےلیے یک زیان ہو کر آواز بلند کرنا ہو گی۔ اپنے اختلافات بھلا کر اپنے اُن مسلمان بھائیوںکےلیے آواز بلند کرنا ہو گی جو ظلم اور مشکل حالات کی چکی میں پس رہے ہیں۔ حقیقی عزت کےلیے جھوٹی اَنا کے چھوٹے چھوٹے بت توڑنا ہوں گے۔ فلسطین کے مسلمان آئے روز گولیوں اور گولوں کا نشانہ بن کر اپنا لہو بہارہے ہیں اور دنیا ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔ اگر کربلا کے میدان میں 72 لوگ بہادری کی تاریخ رقم کر سکتے ہیں تو کیا آج کا مسلمان ایک دوسرے کی آواز بن کر اپنا نقطۂ نظر توانا نہیں کر سکتا، کیا کشمیریوں کے لیے آزادی کا سورج طلوع کرنے کے لیے ہم یک زبان نہیں ہو سکتے۔ کیا ہم دنیا کی بنائی اُن پالیسیوں کے خلاف آواز بھی نہیں اٹھا سکتے جو مختلف فریقو ں کے لیے مختلف ہیں، مذہبی دن پورے احترام اور جذبے کے ساتھ منانے چاہئیں لیکن ان مذہبی دنوں کی سپرٹ اور روح کو اپنے اندر سمونے کا بھی اہتمام کیا جانا چاہیے، ان کو اپنی عملی زندگیوں کے لیے مشعل راہ بنانا چاہیے۔ آج بھارت پاکستان کاپانی بند کر کے اسے ریگستان میں بدلنےکے درپےہے لیکن ہم اس حوالے سے نہ دنیا کی اور نہ ہی اپنے مسلمان ملکوں کی حمایت حاصل کر سکے ہیں۔ کیا بھارت کےلیے یہ سب کچھ تب بھی اتنا ہی آسان ہو گا جب سب مسلمان یک زبان ہو کر آواز اٹھائیں گے؟ محرم الحرام کے حوالے سے ایک خوبصورت ہائیکو

صرف یہ اہتمام کر رکھنا

چھ محرم کو، چھ مہینوں کے

سارے بچوں کے ہونٹ تر رکھنا

تازہ ترین