• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بوڑھوں کو نوجوانوں کا خون لگانے سے ان کی زندگی بڑھ جاتی ہے

کراچی (نیوز ڈیسک) لگتا ہے ڈریکولا ٹھیک ہی کہتا تھا کہ دوسروں کا خون استعمال کرنے سے اس کی زندگی میں اضافہ ہوتا ہے! تاہم، یہاں بات خون پینے کی نہیں بلکہ نوجوانوں کا خون بوڑھے اور عمر رسیدہ افراد کو لگانے کی بات ہو رہی ہے۔ ایک نئی تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ ’جوان خون‘ کی مدد سے انسان اپنی زندگی طویل کر سکتا ہے اور کینسر اور امراضِ قلب جیسی مہلک بیماریوں سے نجات حاصل کر سکتا ہے۔ برطانوی اخبار کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اپنی رگوں میں نوجوانوں کا خون شامل کرنے سے انسان کی صحت بہتر ہوتی ہے۔ یونیورسٹی کالج لندن کے سائنسدانوں نے دعویٰ کیا ہے کہ نوجوانوں کا خون نسیان، کینسر اور دل کے عارضے جیسے مسائل اور بڑھاپے کو روک سکتا ہے۔ یہ تحقیق سائنس میگزین ’’نیچر‘‘ میں شائع ہوئی ہے اور جانوروں پر کیے جانے والے ابتدائی تجربات سے حوصلہ افزا اور مثبت نتائج برآمد ہوئے ہیں۔ تحقیق میں شامل بوڑھے چوہوں کو جب نوجوان چوہوں کا خون لگایا گیا تو انہیں بڑھاپے کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریاں نہیں ہوئیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ خون پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ یہ معلوم کیا جا سکے کہ آخر وہ کون سے صحت بخش اجزا ہیں جن کی وجہ سے بوڑھے افراد کو یہ خون دیے جانے کے بعد انہیں بڑھاپے کے مسائل نہیں ہوتے۔ اس ریسرچ میں امریکی سائنسدا ن برطانوی ماہرین کے مقابلے میں زیادہ تجربہ کے حامل ہیں کیونکہ حال ہی میں امریکی ریاست کیلیفورنیا کے شہر سان فرانسسکو میں ماہرین نے انسانوں پر بھی خون کے انتقال کے حوالے سے تجربات شروع کر دیے ہیں اور ایمبروسیا نامی کمپنی نوجوانوں کا خون 8؍ ہزار ڈالرز میں فروخت کر رہی ہے۔ کمپنی کے بانی کا کہنا ہے کہ نوجوانوں کا خون بڑی عمر کے لوگوں کو لگانے سے ان کے کولیسٹرول میں کمی آتی ہے۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس تکنیک کو استعمال کرنے کا خیال ڈیڑھ سو سال قبل چوہوں پر کی جانے والی ایک تحقیق کے دوران آیا تھا۔ تحقیق کے دوران دو چوہوں کی رگیں آپس میں جوڑ دی گئیں تو ان کے خون نے اعضاء، پٹھوں اور اسٹیم سیلز کو طاقت بخشی۔ تاہم، اس عمل سے اخلاقی مسائل بھی جڑے ہیں، جیسا کہ نوجو انو ں کا خون اپنی صحت کیلئے استعمال کرنا کیونکہ نوجوان شاید اسلئے خون عطیہ کر رہے ہوں گے کہ یہ کسی کی جان بچانے کیلئے استعمال ہو رہا ہوگا۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس طریقہ علاج کے ذریعے ہونے والے فوائد کے متعلق کوئی ٹھوس طبی شواہد موجود نہیں۔ چاہے کچھ بھی ہو ، تحقیق کے میدان میں اس حوالے سے ابھی کئی تجربات ہونا باقی ہیں۔

تازہ ترین