• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اسلام آباد ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ کی طرف سے شریف خاندان کے لئے ایک عارضی لیکن خصوصی اہمیت کا حامل ریلیف ملا ہےاور نواز شریف، مریم نواز اور ریٹائرڈ کیپٹن صفدر کی سزا ان کی اپیل پر فیصلے تک معطل کردی گئی ہے۔ یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب تینوں بیگم کلثوم نواز میں جنازے میں شرکت کے بعد جیل واپس آئے تھے۔ شریف خاندان خاص طور پر نواز شریف کے لئے ابھی بھی طویل سفر باقی ہے کیوںکہ انہیں اگر اپیل میں ریلیف مل بھی جاتا ہے تو دیگر دو ریفرنسز میں کلیئر ہونا باقی رہ جائیگا۔ لہذا، ن لیگ کے لئے ضروری ہے کہ اپنے جذبات اور اعصاب کو قابو میں رکھے۔ ابھی یہ دیکھنا باقی ہے کہ نواز شریف پارٹی کی مستقبل کی حکمت عملی سے متعلق کیا فیصلے کرتے ہیں لیکن اس بات کا تقریبا کوئی امکان نہیں کہ وہ اپنی اہلیہ کے انتقال کے باعث عوامی جلسوں اور ریلیوں سے خطاب کریں۔ شہباز شریف کے لئے یہ دیکھنا ضرور ی ہے کہ اپوزیشن کو کیسے متحد رکھیں۔ ہم سب شہباز شریف کی انتظامی صلاحیتوں کو جانتے ہیں جبکہ ان جانشین عثمان بزدار اب تک متاثر کن کارکردگی نہ دکھا سکے ہیں۔ تاہم بطور قائد حزب اختلاف شہباز شریف سخت جانچ سے گذر رہے ہیں اور تاحال اپوزیشن کو متحد رکھنے میں ناکام رہے ہیں۔ لہذا 100دن نہ صرف وزیراعظم عمران خان اور ان کی حکومت کے لئے امتحان ہیں بلکہ شہباز شریف کے لئے بھی بطور قائد حزب اختلاف امتحان ہی ہیں۔ کیا عمران خان اپنی حکومت اور شہباز شریف اپوزیشن کا رخ درست رکھ سکتے ہیں۔ 25جولائی کے انتخابات میں دھاندلی سے متعلق پار لیما نی کمیشن کے نتائج کے بارے میں میں کوئی زیادہ پر امید نہیں۔ اس حوالے سے بھی شہباز شریف کا کردار امتحان سے گذرے گاکیوںکہ حکومت نے کمشن بنا کر بار ثبوت اختلافات کی شکار اپوزیشن پر ڈال دیا ہے۔ یہ کس طرح ممکن ہے کہ پارلیمانی کمیشن جس میں حکومتی اور اپوزیشن کے اراکین کی تعداد برابر ہو، اتفاق رائے سے فیصلہ کرسکتا ہے کہ 25جولائی کے انتخابات میں دھاندلی ہوئی تھی یا نہیں۔ لہذا الیکشن کمیشن کے پاس دھاندلی کے حوالے سے زیر التوا پٹیشنز کی موجودگی میں یہ دیکھا جائے گا کہ کس طرح قائد حزب اختلاف شہباز شریف کمیشن کے سامنے ثبوت سامنے لاسکیں گے۔ تاحال ن لیگ اور شہباز شریف پوری اپوزیشن کو چھوٹے ترین ایجنڈے پر بھی ایک پلیٹ فارم پر لانے میں ناکام رہے ہیں ، اس کے علاوہ ن لیگ نے اپنا احتجاج اسمبلیوں تک محدود رکھا ہوا ہے اور منی بجٹ کے حوالے سے انکا رد عمل ایوان تک ہی محدود رہا۔ لیکن آئندہ کچھ دنوں میں حکومت مقامی حکومتوں سے متعلق قوانین میں بڑی ترامیم متعارف کرانے کا ارادہ رکھتی ہے جو 2001کے لوکل گورنمٹ ایکٹ سے قریب تر ہوں گی۔ تحریک انصاف چاہتی ہے کہ پنجاب میں اپنے اتحادیوں خصوصا ق لیگ کے ساتھ مل مقامی حکومتوں کے ذریعے اپنی پوزیشن مستحکم کی جائے جبکہ پنجاب اسمبلی میں قائد حزب اختلاف حمزہ شہباز نے اس حوالے سے سخت وارننگ جاری کی ہوئی ہے۔ یہ ن لیگ کے لئے بطور اپوزیشن پارٹی ایک اور امتحان ہوگا۔ بیگم کلثوم نواز مشکل حالات میں پارٹی کو متحد رکھنے کا ذریعہ ہوا کرتی تھیں۔ طویل علالت کے بعد ان کی رحلت نے ن لیگ کے اندر ایک خلا پیدا کردیا ہے۔ انہوں نے 12اکتوبر 1999سے لے کر 2001تک پارٹی کو متحد رکھا اور اگر شریف برادران دبئی ڈیل کا ذریعہ اختیار نہ کرتے توسابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کو زیادہ مشکل صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا۔ وہ اب حیات نہیں اور اگر نواز شریف اور مریم نواز کو ایک یا دو کیسز میں ریلیف مل بھی جاتا ہے، تب بھی ان کے خلاف دیگر کیسز میں تحقیقات چلتی رہیں گی۔ لہذا نواز شریف کو شہباز شریف سے توقع ہے کہ وہ بطور اپوزیشن لیڈر زیادہ فعال کردا ادا کریں۔ کلثوم نواز کا جنازہ اور وسیع پیمانے پر سیاسی قیادت کی اس میں شرکت اپوزیشن جماعتوں کے درمیان سیاسی مفاہمت کا نکتہ آغاز بن سکتی ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یہ سابقہ خاتون اول کو جمہوریت کی بحالی کیلئےان کی خدمات پر خراج تحسین پیش کرنے کیلئے قومی سطح کا جنازہ تھا۔ یہ مرحومہ کی خدمات اور کردار تھا جس کے باعث سابق صدر آصف زرداری، بلاول بھٹو، گجرات کے چوہدری برادران اور دیگر نمایاں افراد تعزیت کیلئے رائیونڈ آئے۔ تحریک انصاف اور ق لیگ کے وفد نے جس میں قومی اسمبلی کے اسپیکر اسد قیصر بھی شامل تھے، جنازے میں شرکت کی۔ تحریک انصاف کا رد عمل مثبت تھا اور شریف خاندان نے بھی اسے سراہا۔ اب زندگی رواں دواں ہے لیکن ہرکوئی ان کے انتقال کا اثر محسوس کرسکتا ہے جس کے باعث سیاسی درجہ حرارت کچھ دنوں کے لئے ہی سہی لیکن نیچے آگیا۔اس دوران جو لوگ بھی نواز شریف سے ملے ان کے مطابق وہ رنجیدہ لیکن شکستہ نہ تھے۔ مریم کیلئے یہ ایک بڑا نقصان تھا جس نے انہیں توڑ کر رکھ دیا۔ اس خاندان کو معلوم ہے کہ ان کے لئے آگے کیا کچھ آنیوالا ہے اور یہ ایک طویل راستہ ہے کیونکہ ان کے حریف عمران خان کی اقتدار پرگرفت مضبوط ہے اور انہیں دیگر اداروں کا اعتماد بھی حاصل ہے۔ شہباز شریف کو اس بھائی سے بہتر کون جان سکتا ہے جنہوں نے ان کی تربیت کی اور جسے ان کی طاقت اور کمزوریوں کا مکمل اندازہ ہے۔ دوسرا شخص جس پر شہباز شریف کو بہت بھروسہ تھا تاہم وہ اب ن لیگ میں نہیں وہ چوہدری نثار علی خان ہیں جنہوں نے لندن میں بیگم کلثوم نواز کے جنازے میں شرکت کی اور ذرائع کے مطابق وہاں ان کی ملاقات بھی ہوئی۔ گذشتہ کچھ سالوں میں رونما ہوتی تبدیلیوں نے جس طرح سیاست کو بدل کر رکھ دیا ہے اس کی وجہ سے دو بڑی سیاسی جماعتیں ن لیگ اور پیپلز پارٹی مرکزی سطح پر اپنے لئے جگہ تلاش کرنے کی تگ و دومیں مصروف ہیں۔ اب یہ تحریک انصاف اور عمران خان پر منحصر ہے کہ وہ اپنی پوزیشن مضبوط کریں گے یا غلطیاں کر کے اپوزیشن کو اپنا کھویا ہوا اعتماد بحال کرنے کا موقع فراہم کریں گے۔ شاید دونوں جماعتیں عمران خان کو اس لئے وقت دینا چاہتی ہیںکہ وہ پارٹی کے اندر اور ان حلقوں سے جن کا ہمارے نظام میں کردار ہے، مسائل کا شکار ہیں۔ ن لیگ کے ساتھ 2013سے 2018تک جو کچھ بھی ہوا وہ غیر متوقع تھااور لگتا ہے کہ نہ ہی شریف خاندان اور ان کی پارٹی ذہنی طور پر اس کے لئے تیار نہ تھے۔ دونوں کو آزاد عدلیہ کی جانب سے مسائل کا سامنا کرنا پڑا اور دیگر اداروں کا موڈ پڑھنے میں غلطی کی۔ کراچی آپریشن کے نتائج کے حوالے سے پیدا ہونے سیاسی پیشرفت نے بھی ان کے درمیان واضح خلیج پیدا کردی ۔

تازہ ترین