• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

شریف خاندان کے خلاف ایون فیلڈ ریفرنس میں کب کیا ہوا؟

اسلام آباد (طارق بٹ) سابق وزیر اعظم میاں محمد نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم اور داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کو پچھلے 14 ماہ میں پہلا پُر معنی ریلیف ملا ہے جو قومی سیاسی منظر پر کافی اثر انداز ہوگا۔ حالانکہ اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتساب عدالت کے فیصلے کےخلاف اپیلوں پر حتمی فیصلہ نہیں کیااس کے باوجود فیصلے کی معطلی اور نواز شریف، مریم اور صفدر کی رہائی کا حکم نمایاں سیاسی ترقی ثابت ہواجس کے اپنے نتائج ہیں۔ جج محمد بشیر کا 6 جولائی کا فیصلہ اسلام آباد ہائی کورٹ کی جانب سے اپیلوں پر فیصلے تک معطل رہے گا۔ نواز شریف اور مریم کو مجرم قرار دئیے جانے اور قید کئے جانے کے باعث مسلم لیگ نون بہت زیادہ دباؤ میں رہی اور خود کو الگ تھلگ ایک کونے میں محسوس کرتی رہی اور 26 جولائی کے عام انتخابات میں شکست کی بھی یہی وجہ بنی تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے سے ان کی دادرسی ہوئی ہے۔ اب شریف خاندان اور مسلم لیگ نون کی عزت بڑھ گئی ہے اور وہ الزامات سے بری ہوکر وثوق سے کہہ رہے ہیں کہ انہیں کرپٹ اور بے ایمان ثابت کرنے کیلئے بغیر معقول ثبوتوں کے الزامات لگائے گئے۔ نیب نے مریم کا نام صرف لندن فلیٹس کے مقدمہ میں لیا جبکہ احتساب عدالت میں زیر سماعت دیگر دو ریفرنسز میں وہ ملزم نہیں ہیں ۔ اگر انہیں فوری ریفرنس کے الزامات سے بری کردیا جاتا ہے تو سیاست کرنے کیلئے آزاد ہوں گی۔ نواز شریف بھی چاہتے ہیں کہ مریم سیاست اور مسلم لیگ نون میں بڑا کردار ادا کریں۔ زیادہ تر افراد جانتے ہیں کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں نیب کی کارکردگی مایوس کن رہی کیونکہ اس کے پرا سیکیو ٹرز شریف خاندان کے وکیل خواجہ حارث کے دلائل کا مقابلہ نہیں کرسکے۔ ملزمان کے خلاف کسی بھی قسم کا ناقابل تردید ثبوت پیش نا کئے جانے کی نیب کی نااہلی کے علاوہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے نے کم سے کم لندن اپارٹمنٹس کی ملکیت کے حوالے سے الزامات سے متعلقپاناما جے آئی ٹی رپورٹ کی قدرو قیمت گھٹادی۔ شریف خاندان کے خلاف یہ اور دیگر دو ریفرنسز میں اینٹی کرپشن ٹیم نے آزادانہ تحقیقات نہیں کیں اور جے آئی ٹی کی فائنڈنگز کی بنیاد پر سپریم کورٹ کی ہدایت پر، جو 28 جولائی کے فیصلے پر مشتمل تھا جس میں نواز شریف کو وزیر اعظم کے عہدے سے ہٹادیا گیا تھا، احتساب عدالت میں جمع کرادیں۔ نیب کے ایک پراسیکیوٹر نے ان اپیلوں کے فیصلوں کو طول دینے کیلئے تاریخی حربے استعمال کئے مگر وہ تمام حربے ججوں کو متاثر نہ کرسکے۔ ایک سے زائد مرتبہ ان وکلاء کی جناب سے عدالتی کارروائیوں کو غیر ضروری طور پر طول دینے پر جسٹس اطہر من اللہ اور جسٹس میاں گل اورنگزیب برہم ہوگئے۔ نیب سینئر وکیل کو لےآیا مگر وہ بھی ججوں کے دماغ تبدیل نہیں کرسکے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے سزاؤں کی معطلی سننے کے فیصلے کے خلاف فضول اپیل پر غیر معمولی طور پر سپریم کورٹ نے نیب پر 20 ہزار کا جرمانہ بھی کیا۔ نیب کی جانب سے لندن اپارٹمنٹس کی قیمت کے تعین کی صراحت نہ کئے جانے اور قیاس جن پر لوئر کورٹ کی جانب سے ملزمان کو مجرم قرار دیا گیا،اس پر ججوں نے بے شمار سوالات اٹھائے۔ ججوں نے ریمارکس دئیے جب نواز شریف کی لندن جائیداد کی ملکیت ثابت نہیں ہوئی تو انہیں کیسے اور کیوں مجرم قرار دیا جاسکتا ہے؟ اور جب وہ ان جائیدادوں کے مالک ہی نہیںتو مریم کو کیسے اور کیوں سزا دی جاسکتی ہے؟ اس پر نیب کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔ شریف خاندان کے خلاف شروع کیا گیا احتساب عمل سزاؤں کی معطلی سے متاثر ہوا ۔ شریف خاندان کے ٹرائل کی تاریخی ترتیب سے یہ صاف ظاہر ہے کہ کچھ ماہ قبل جسٹس آصف سعید کھوسہ نے پانچ رکنی سپریم کورٹ بنچ کی رہنمائی کی، اپنا دو ٹوک فیصلہ 28 جولائی 2017 کو دیا جس کی کارروائی روزانہ کی بنیاد پر چلائی گئی۔ اس سے پہلے ایسی ہی درخواستیں فضول کہہ کر مسترد کردی گئیں۔ عدالت عالیہ نے چھ رکنی جے آئی ٹی تشکیل دی، نواز شریف وزیر اعظم کی حیثیت سے ایک سے زائد مرتبہ اس کے سامنے پیش ہوئے ۔ جے آئی ٹی کی رپورٹ ملنے کے بعد سپریم کورٹ نے نیب کو حکم دیا کہ وہ تفتیشی ٹیم کے نتائج کی بنیاد پر چھ ہفتوں میں احتساب عدالت میں ریفرنسز داخل کرے۔ وقت کی کمی کے باعث نیب خود کوئی تفتیش نہ کرسکی۔ سپریم کورٹ نے احتساب عدالت کو ان ریفرنسز کا فیصلہ کرنے کیلئے چھ ما ہ کا وقت دیا۔بعد ازاں احتساب عدالت کو مزید وقت دیا گیا۔ نیب نے ستمبر 2017 میں ریفرنسز داخل کئے۔ 28 جولائی کے فیصلے میں عدالت عالیہ کے ایک نگران جج کو بھی نامزد کیا گیا جسے نیب کی تحقیقات اور احتساب عدالت کی کارروائیوں کی نگرانی کرنا تھی۔ احتساب عدالت نے لندن اپارٹمنٹس کیس کا فیصلہ 6 جولائی کو سنایا جب نواز شریف اور مریم ، بیگم کلثوم نواز کی علالت کے باعث لندن میں تھے۔ 13 جولائی کو نواز شریف اور مریم لندن سے لاہور پہنچے اور گرفتاری دی۔ انہیں ایئرپورٹ سے ہی حراست میں لے کر اڈیالہ جیل راولپنڈی بھیج دیا گیا۔ بعد ازاں صفدر کو بھی گرفتار کرلیا گیا۔ بیگم کلثوم کے انتقال پر انہیں 5 دن کے پیرول بھی رہا کیا گیا۔ 14 جولائی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں اپیلیں دائر کی گئیں اور شریف خاندان کے پینسٹھویں روز ان کی سزا معطل کردی گئی۔

تازہ ترین