• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پاکستان اور دیگر ممالک میں کئی بار عدالتوں نے اپنے ہی فیصلوں کو واپس لیا

لاہور(صابرشاہ) چونکہ پاکستان میں کرپشن پر نظررکھنےوالےادارےقومی احتساب بیورونے ایون فیلڈریفرنس میں شریف خاندان کےتین اراکین کی سزامعطل کرنےکےاسلام آباد ہائی کورٹ کےحالیہ فیصلےکےخلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنےکا فیصلہ کیاہےتو یہ دیکھنا ہوگاکہ کیاعدالت عظمیٰ ماتحت عدالت کےفیصلےکوبرقرار رکھ کر اپنے ہی فیصلے کو بدل دےگی یایہ بدھ کوآنےوالے فیصلے کو ختم کردےگی۔ ’’ جنگ گروپ اور جیوٹیلی ویژن نیٹورک‘‘ کی جانب سے کی گئی تحقیق سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے بہت سےقابل ذکر واقعات ہیں جہاں پاکستانی اورغیرملکی سپریم کورٹس نےاپنےہی فیصلےکوبدل دیا۔ پاکستان کی عدالتی تاریخ پرنظرڈالنےسےایسی اہم مثالیں ملتی ہیں جہاں اعلیٰ عدالتوں نے اپنے فیصلوں کو بدل دیا۔ ایسے ہی ایک فیصلے میں سزایافتہ سابق پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کو بھی فائدہ ہوا، انھیں اب ضمانت پر رہا کردیاگیاہے۔ لہذا صدمےکاشکار نوازبدھ کو دوسرے بار خوش قسمت ٹھرے۔ ریکارڈ سےپتہ لگتاہے کہ 26مئی 2009کےاپنے فیصلے کےمطابق اس وقت کے اپوزیشن رہنما نواز شریف پارلیمانی انتخابات میں حصہ لے سکتے تھے اور سرکاری عہدہ بھی رکھ سکتے ہیں۔ 25فروری 2009کےعدالتی فیصلے میں نوازشریف کو سرکاری عہدہ رکھنےکیلئےنااہل قراردیاگیا اور اسی سال مارچ میں بڑےپیمانے پرمظاہرے پھوٹ پڑےتھے۔ جنوری 2016 میں پاکستانی سپریم کورٹ نے’’تلور‘‘کےشکار پرپابندی کے اگست2015کےاپنے ہی فیصلے کو ختم کردیا۔ خلیجی ممالک کے امیر افرادہرسال سردیوں میں تلور کےشکار کیلئےپاکسان کےجنوب مغربی صوبےبلوچستان کاسفرکرتےہیں اس کام کیلئے بازکااستعمال کرتے ہیں۔ اس معاملے کےباعث پاکستان اورعرب دنیا میں اس کے اتحادیوں کے قریبی تعلقات بھی زیربحث آئے تھے، خاص طورپر سعودی عرب کے ساتھ۔ 22جنوری 2016کےاپنے فیصلے میں سپریم کورٹ نے کہاتھاکہ اس نے پرندے کے شکار پر پابندی کے فیصلے کو ختم کردیا ہے اوراس معاملےپردرخواست اب دوبارہ سماعت کی فہرست والےکیسز میں ڈال دی گئی ہے۔ پاکستانی اخبارات کے ریکارڈکے مطابق جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں پانچ رکنی بنچ نے اُس رویوپٹیشن کافیصلہ سنایاتھاجسے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نےپابندی کےخلاف دائرکیاتھا۔ 1-4کےاکثریتی فیصلےمیں عدالت نے معدومیت کے خطرے سےدوچارپرندے کےشکارسے پابندی اٹھالی تھی۔ تاہم قاضی فائز عیسیٰ نےبنچ کے فیصلے کی مخالفت کرتے ہوئے اختلافی نوٹ لکھا دیا۔ عدالت نے قراردیاکہ ’’بظاہر ریکارڈ میں کوئی غلطی ہے‘‘ اور اس نے اپنے 19اگست 2015کےفیصلےکوختم کردیا۔ اگست2015کی پابندی اس درخواست کے نتیجے میں لگی تھی کہ پاکستان نےتلور کی نسل کومحفوظ پرندہ قراردےکرپاکستان وائلڈ لائف آّرڈیننس 1971کےتھرڈشیڈول کےتحت تلورکےشکار پرمستقل پابندی عائدکردی تھی۔ اکتوبر2015میں وفاقی حکومت اور پنجاب، بلوچستان اورسندھ کی صوبائی حکومتوں نے سپریم کورٹ سے اپنے فیصلے پرنظرثانی کیلئے کہا، وفاقی حکومت نے’’تلورکےشکار‘‘کیلئے عرب ملکوں کومدعوکرنےکو’’پاکستان کی خارجہ پالیسی کیلئےاہم‘‘ قراردیاتھا۔ وینزویلا کی مثال: ڈوچےویلی یا ڈی ڈبلیو‘‘کےمطابق اپریل 2017میں وینزویلاکی سپریم کورٹ نےاپنے فیصلے کو ختم کردیاتھا جس میں حزبِ اختلاف کی جانب سے کنٹرول ہونےو الی کانگریس کی قانون سازی کےاختیارات کوختم کردیاگیاتھا۔ ’’ڈوچےویلی‘‘ نے مزیدکہا: ’’وینزویلا کی سپریم کورٹ نے کہاکہ یہ اپوزیشن کی جانب سے کنٹرول کیےجانےوالے ایوان سےاختیارات لینےکےاقدامات کوختم کررہی ہے۔ تنقید نگار نے اسے آّمریت کی جانب اقدام کہتے ہوئے اس پر تنقید کی تھی۔ وینزویلاکی عدالتِ عظمیٰ نے کانگریس کےاختیارات ختم کرنے کےفیصلے کوعالمی مذمت اورسڑکوں پر ہونےوالےاحتجاج کےبعدختم کیاتھا۔‘‘ جرمنی کے میڈیاہائوس نے کہاتھا: ’’ سپریم کورٹ نے ویب سائٹ پر شائع ہونے والی رولنگ میں کہاتھاکہ اس نے 29مارچ 2017کی اپنی اس رولنگ کوختم کردیاہےجس میں کانگریس کے قانون سازی کے اختیار ختم کیےگئےتھےایسااس لیے کیاگیاکہ خدشہ تھاکہ تیل کی دولت سےمالامال ملک کےصدرنکولس مادوروکی قیادت میں آمریت کی جانب بڑھ رہاتھا۔ عدالت نےپارلیمانی استثنیٰ ختم کرنےکےفیصلےکوختم کرنےکی بھی رولنگ دی۔ نئی رولنگ صدرمادورو کی جانب سے اس بات پر زوردینے کے بعد آئی کہ عدالت ریاستی سیکیورٹی کےاجلاس کےبعد فیصلے پر نظرثانی کرے۔‘‘ امریکا سے کچھ قانونی مثالیں: ریاست ہائے متحدہ امریکامیں کوئی بھی ماتحت عدالت سپریم کورٹ کے فیصلے کو بدل نہیں سکتی۔ درحقیقت، کانگریس یا صدر بھی سپریم کورٹ کے فیصلے کو تبدیل، مستردیانظرانداز نہیں کرسکتے جس سے سپریم کورٹ کے فیصلے کونظرثانی میں تبدیل کرناانتہائی مشکل ہوجاتاہے۔ تاہم ایسےدوطریقےہیں جہاں یہ ہوسکتاہے۔ ریاستیں خود آئین میں تبدیلی کرسکتی ہیں اور اس کیلئے ریاستی قانون ساز اداروں کےتین حلقوں سےمنظوری لینےکی ضرورت ہوتی ہے، یہ کسی بھی طرح سےآسان نہیں۔ دوسراطریقہ جس میں سپریم کورٹ اپنافیصلہ بدل سکتی ہےوہ یہ ہےکہ جب مختلف مقدمات میں ایک ہی طرح کےآئینی معاملات شامل ہوں، اس طرح عدالت نےایک مقدمےپرنظرثانی کی تھی اورنئی طرح سےاسےدیکھاکیونکہ معاشرتی اورسیاسی حالات بدل رہےتھے۔ لیکن تاریخ سےپتہ لگتاہےکہ امریکی سپریم کورٹ نےبڑی تعدادمیں اپنےفیصلوں کوبدلاہے۔
تازہ ترین