• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مسٹر اردشیر کاؤس جی ، جن کا خاندان ملک کے ابتدائی 22 متمول ترین خاندانوں میں سے ایک ہے، حقیقی معنوں میں ایک سیٹھ تھے، تاہم زیادہ تر دولت مند افراد کے برعکس وہ ذوق لطیف اور پُر مزاح طبیعت کے مالک تھے۔ وہ اپنی گفتگو کو مزاحیہ جملوں سے آراستہ کرنا جانتے تھے۔ کئی مرتبہ ایسا ہوتا کہ وہ ایک ہی واقعہ کو مختلف ملاقاتوں کے دوران دہرا جاتے مگر ہر مرتبہ انداز اتنا دلکش ہوتا کہ مجھے بوریت یا اکتاہٹ ہرگز محسوس نہیں ہوتی تھی۔ کاؤس جی صاحب کے پاس اپنے ذوق کے مطابق زندگی بسر کر نے کے لیے وسائل کی کمی نہ تھی۔ پاکستان جیسے ملک ، جہاں دولت کی فراوانی سیاسی وابستگی کے بغیر ممکن نہیں ہے، اکثر سیٹھ سیاسی شخصیات کے ساتھ راہ و رسم رکھنے کے لیے ہر ممکن جتن کرتے ہیں مگر کاؤس جی ، جن پر آسمانی طاقتوں کی خاص مہربانی تھی، اس گراوٹ سے مبرّا تھے۔ بھٹو صاحب کی طرف سے جہاز رانی کے شعبے، جو کاؤس جی خاندان کا خاندانی پیشہ تھا، کو قومیانے کے عمل نے اس خاندان کے دیگر افراد کو نقصان پہنچا یاہو گا مگر اس نے اردشیر کاؤس جی کوذاتی طور پر فائدہ پہنچایا کیونکہ وہ تمام سطحی وابستگیوں سے بالا تر ہو کر ایک لبرل اور آزاد انسان کے طور پر ابھرے، ایک ایسے انسان جو ہمارے دل میں بستے ہیں۔ کراچی میں اور بھی دولت مند افراد ہیں مگر اُنہیں کون جانتا ہے مگر کاؤس جی صاحب سے ایک جہان واقف ہے۔ تاہم اس کی وجہ صرف رفاہ عامہ کے کام یا اچھے مقاصد کی سرپرستی نہیں،ا گر چہ ان میں بھی وہ کسی سے کم نہ تھے، بلکہ ایک اخبار میں باقاعدگی سے کالم نویسی تھی جس نے اُن کو دیگر متمول افراد سے ممتاز کر دیا۔ یہ کسی بھی سیٹھ کے لیے غیر معمولی بات تھی کہ وہ ایک صاحب طرز کالم نویس کے طور پر اپنی حیثیت کو منوا لے۔
مسٹر اردشیر کا اسلوب ِ نگارش ، جواُن کی جاندار ، پرمعنی اور طنزو مزاح کی چاشنی سے عبارت گفتگو سے ہم آہنگی رکھتا تھا، بناوٹ اور مصنوعی پن سے پاک تھا۔ بعض معاملات ، جیسا کہ کراچی میں قبضہ مافیا کے پھیلتے ہوئے پنجے، پر وہ برہم ہو جاتے تھے جبکہ جناح کے پاکستان کا زوال اُن کواداس کر دیتا۔ کاؤس جی خوش قسمت تھے کہ انگریزی کی ماہر کالم نگار آمینہ جیلانی اُن کے کالم ٹائپ کردیا کرتی تھیں۔کاؤس جی صاحب کی ہمہ جہت طبیعت فن کاروں، صحافی حضرات ، وکلا اور اس ملک میں اچھے کام کرنے والوں کے ساتھ خندہ پیشانی سے پیش آتی۔ شاید کسی اور سیٹھ کا حلقہ ِ احباب اتنا وسیع نہ تھا جتنا کاؤس جی صاحب کا۔
کاؤس جی صاحب کے گھر میں کھانے کی دعوت کا ایک اپنا انداز تھا․․․ سوپ، گھر کی پکی روٹی ، کوئی بھی سالن اورمیٹھی ڈش بڑے سلیقے سے میز پر رکھے جاتے جبکہ کھانے کے ہر دور کے ساتھ گھنٹی بجا کر موٴدب خانساماں کو بلایا جاتا۔ پینے کے معاملے میں وہ بہت صاحب ِ ذوق تھے اور اُن کا بار ہمیشہ اچھے مشروبات سے بھرا رہتا مگر وہ عام پاکستانیوں کی طرح دکھاوا نہیں کرتے تھے۔ اُن کے ہاں وہ سلیقہ دیکھنے کو ملتا تھا جس سے ہم عام پاکستانی نابلد ہیں۔ اب یہ نہیں ہے کہ پابندی کی وجہ سے یہاں پینے والے تائب ہو گئے ہیں، ہو ا یہ ہے کہ ناؤ نوش کے آداب ختم ہو گئے ہیں اور ”مال “ اتنا مہنگا ہو گیا ہے کہ عام پاکستانی اس کی استطاعت نہیں رکھتے ہیں۔
ضیا دور میں جب میں نے کالم نویسی کا آغاز کیا تو مجھے کاؤس جی صاحب کی طرف سے دعوت موصول ہوئی کہ اگر میں کبھی کراچی آؤں تو اُن سے ملاقات کروں۔ اس طرح ہماری ملاقاتوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ انہی ملاقاتوں کے دوران کاؤس جی صاحب ، جو اب اس دارِ فانی سے رخصت ہو چکے ہیں، نے مجھے ذوق ِ لطیف کے مشربی ذائقے سے پورے آداب کے ساتھ آشنا کیا۔منو بھنڈرا جو کاؤس جی مرحوم سے قریبی دوستی رکھتے تھے، اپنی پہلی ملاقات ، جو ہنگامہ خیز تھی، کے بارے میں بتاتے ہیں․․․” کراچی میں ایک کشتی پر پارٹی کے دوران ایک نوجوان ،جس نے عمدہ سفید سوٹ پہنا ہوا تھا جبکہ اُس کے سر پر ہیٹ اور جیبوں سے رومال باہر کو لٹکے ہوئے تھے، راستے میں کھڑا تھا۔ میں نے (منو بھنڈرا) سے پوچھا کہ کیامیں اندر آسکتا ہوں تو اُس نوجوان نے جواب دیا کہ ہر گز نہیں۔“اس طرح ان کی طویل دوستی کا آغاز ہوا۔ میرے پاس بھی کاؤس جی صاحب کی عطا کردہ تین یا چار جیکٹس اور رومال ہیں۔اس کے علاوہ ایک بھاری بھرکم آکسفورڈ ڈکشنری ، جو میری میز پر موجود رہتی ہے اور کچھ اور کتابیں ہیں۔ میں نے اُن سے کچھ کتابیں مستعار لیں اور اپنی ”ساکھ “ بنانے کے لیے واپس کر دیں مگر پھر کچھ ، جیسا کہ ”Waugh's Decline and Fall“ واپس نہیں کیں۔ بہتر ہے کہ اب اُن کی صاحبزادی ایوا سے کہوں کہ وہ ان پر دستخط کرکے مجھے باضابطہ طور پر دے دیں۔
1995 کے موسم ِ بہار میں جب مجھے ”گرین کالج آکسفورڈ“ میں رئیٹر کی فیلوشپ لینی تھی اور اس سلسلے میں ڈاکٹر ہمایوں خان ، جو اُس وقت کامن ویلتھ انسٹی ٹیوٹ آف لندن کے سربراہ تھے، نے میری مدد کی، تو مجھے کاؤس جی فاؤنڈیشن سے 500 پاؤنڈز کا چیک دیا گیا۔ مجھے سنجیدگی سے بتایا گیا کہ رقم کتابیں خریدنے کے لیے ہے ، تاہم آج افسوس کے ساتھ بتانا چاہتا ہوں کہ اُس رقم کا بڑاحصہ آکسفورڈ میں موجود کلب مالکان کی قسمت میں لکھا ہوا تھا، چنانچہ اُن کے حصے کی بروقت ادائیگی کے بعد جو رقم بچ گئی ، اُس سے میں نے پرانی کتابیں خرید لیں۔ آج جب ان کتابوں کو کھول کر دیکھتا ہوں تو پرانے ایام ِ رفتہ ایک متحرک تصویر کی مانند آنکھوں کے سامنے گردش کرنے لگتے ہیں۔ میدان ِ سیاست میں میرے قدم رکھنے کی وجہ بھی کس حد تک کاؤس جی صاحب ہی بنے۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کی دوسری مدت کی حکومت کے دوران مسٹر الہی بخش سومرو نے نواز شریف صاحب اور پاکستان مسلم لیگ (ن) کے کچھ اور سرکردہ رہنماؤں کو اپنے اسلام آباد کے گھر میں کھانے کی دعوت دی۔ اُ س وقت کاؤس جی صاحب بھی اسلام آباد میں موجود تھے، چنانچہ اُن کو بھی مدعو کیا گیا۔ اُن کے ساتھ میں بھی آگیا۔ اُس وقت کاؤس جی صاحب نے پاکستان مسلم لیگ (ن) کے بارے میں کچھ بے باکانہ اور دوٹوک باتیں کیں۔ میاں صاحب نے مسکراتے ہوئے کہا․․․” کاؤس جی صاحب، میں نے آپ جیسا صاف گو انسان پہلی مرتبہ دیکھا ہے۔“کھانے کے بعد میں نے موقع پا کر پارٹی کے ایک سرکردہ رہنما کو ایک طرف لے جاتے ہوئے کہا کہ آنے والے انتخابات میں میں اپنے آبائی شہر چکوال کی سیٹ سے انتخابات لڑنا چاہتا ہوں․․․ مسلم لیگ 1993 کے انتخابات میں یہ سیٹ ہار چکی تھی۔ اس پر نوازشریف صاحب نے خوش ہوتے ہوئے کہا کہ ایک کھوئی ہوئی سیٹ کو واپس حاصل کرنا ان کی پارٹی کے لیے اچھی بات ہو گی۔ اُس وقت انتخابات ہونے میں ابھی دوسال باقی تھے۔اس سیٹ کے لیے ٹکٹ حاصل کرنے میں مجھے پارٹی کے اندر سے کچھ مخالفت کا سامنا کرنا پڑا مگر میرے دوست مسٹر مشاہدحسین، جو اُس وقت پی ایم ایل این کے روحِ رواں تھے، نے میری وکالت کی اور مجھے ٹکٹ مل گیا۔ اس طرح میرا سیاست میں آنا کسی طے شدہ منصوبے کا نتیجہ نہ تھا بلکہ کاؤس جی صاحب کے ساتھ اُس دن کھانے پر جانے سے کتاب ِ زندگی کا ایک نیا باب شروع ہو گیا۔ اس کے علاوہ شادی ، جو زندگی کی اُن ساعتوں میں ہنگامہ خیز مگر بعد میں یادوں کے نہاں خانوں میں الجھے ہوئے بے کیف تصورات کا اظہار لگتی ہے، بھی مجھے کراچی لے گئی۔ اُ س وقت کاؤس جی صاحب میرا استقبال کرنے میں پیش پیش تھے اور اپنے ساتھ بڑے اہتمام سے باوردی بینڈ باجے والے بھی لائے تھے۔ جب میں نے کراچی کی سرزمین پر قدم رکھا، بینڈ والوں نے نہایت دلکش دھنیں بکھیرنی شروع کر دیں۔ اس وقت وارفتگی سے شوق دیوانہ ہوا جارہا تھا۔ جب میں ڈرگ روڈ پر کاؤس جی کی کشادہ کارمیں جارہا تھا،تو آڈیو پر بیتھون کی ایک دھن لگی ہوئی تھی۔ یہ ایک پرانی گاڑی تھی۔ اس کے بعد ایک اورگاڑی ، جس کا رنگ سلور اور سیٹیں ارغوانی رنگ کی تھیں لائی گئی۔ اہالیانِ کراچی اس گاڑی کو ا یسے دیکھ رہے تھے جیسے یہ کسی اور دنیا کی مخلوق ہو․․․ اسٹئرنگ پر ایک فرنچ کٹ داڑھی والا نوجوان تھا جبکہ پولیس کا چاق و چوبند دستہ گاڑی کے پیچھے رواں دواں تھا۔
کاؤس جی صاحب کو دومرتبہ توہین ِ عدالت کیس میں سپریم کورٹ کے سامنے پیش ہونا پڑا․․․ پہلی مرتبہ جسٹس سجاد علی شاہ صاحب اور دوسری مرتبہ جسٹس سعید الزماں صدیقی صاحب کے سامنے․․․ اور وہ اپنے مخصوص سوٹ میں ہاتھ میں چھڑی تھامے ، جس پر حقیقی ڈائمنڈ لگا ہوا تھا، آہستہ سے چلتے ہوئے آئے اوراپنی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ اس عدالت کے سنجیدہ اور باوقار ماحول کا لطف لے رہے ہیں۔ مسٹر خالد انور اور مسٹر حفیظ پیرزادہ اُن کے وکلا تھے۔ اُن کیسز کا کوئی بھی نتیجہ برآمد نہ ہوااور اب تک وہ فائلیں کہیں دبیز دفتر میں کھوچکی ہوں گی۔ ہم ایک مرتبہ کراچی کے منگولین ریستوران میں گئے اور کاؤس جی صاحب نے کھلی آستینوں والا لمبا سوٹ پہنا ہوا تھا۔ پر تکلف کھانے کے بعد جب بل لایا گیا تو اُنہوں نے ایک ٹشو پر اپنے بنک کو ادائیگی کی ہدایت کر دی۔ ویٹروں نے بھی ٹشو پر رقم کی ادائیگی کی ہدایت کو ناکافی نہ سمجھا ، بلکہ جب ہم کاؤنٹر کے پاس سے گزر کر باہر آئے تو کسی نے آنکھ اُٹھا کر بھی ہماری طرف نہ دیکھا۔ اس وقت تک مجھے یقین ہے کاؤس جی صاحب سنہرے باغات میں داخل ہو چکے ہوں گے او ر وہاں کے صاحبِ ذوق ان کی دلکش گفتگو کا مزہ لے رہے ہوں گے۔ اُن کے اردگرد بہت سے نابغہ ٴ روزگار شاعروں اور ادیبوں کا حلقہ ہو گا۔ ہوسکتا ہے کہ وہاں اُن کے پاس اُن کے پسندیدہ پالتو پرندے اور جانور بھی ہوں، کون جانتا ہے کہ وہاں اُن کو ان کی پسندیدہ کار اور کھلی آستینوں والا سوٹ بھی مل چکا ہو۔
تازہ ترین