• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کچھووں کی نایاب گرین نسل کا کچھو ا green turtle بدھ کی رات گوادر کےمغربی ساحل پدی زرپرمردہ حالت میں پایاگیا،اس گرین کچھوےکاوزن 45کلو گرام سےزیادہ بتایا جاتا ہے ۔

اسسٹنٹ ڈائریکٹرماحولیات گوادر ڈیویلپمنٹ اتھارٹی عبدالرحیم نےجیو نیوز کوبتایا کہ مردہ حالت میں پائےجانےوالا سبز کچھوا جنس کےاعتبار سے مادہ ہے،اور اس کاتعلق سمندری کچھووں کی نایاب نسل سےہے جسے ماحولیاتی مسائل سمیت کئی وجوہ کی بناء پر شدید خطرات لاحق ہیں۔عبدالرحیم کاکہناتھا کہ گرین کچھوےکی موت کسی ماہی گیر کےپلاسٹک کےممنوعہ جال میں پھنسنےسےہوئی۔

نایاب نسل کے یہ کچھوے گوادر،پسنی اور اورماڑہ کےسمندرمیں پائے جاتے ہیں،گرین کچھوےکی پلاسٹک کےجال میں پھنسنےسےموت کےواقعات بڑھتے جارہےہیں،گوادر کےعلاوہ اورماڑہ سےبھی رواں ماہ گرین کچھوےکےمردہ حالت میں پائےجانےکےتین واقعات رپورٹ ہوئے،لیکن اس طرح کے واقعات کی تعداد کہیں زیادہ ہے۔

انسانی آبادی قریب ہی ہونے کی وجہ سے کچھووں کی اموات رپورٹ ہوجاتے ہیں تاہم کئی علاقے ایسے ہیں کہ جہاں سےیہ واقعات رپورٹ نہیں ہوپاتے،اس بناء پر یہ کہاجاسکتا ہے کہ گرین کچھوے کی نایاب نسل کو مکران کےساحلوں پرشدید خطرات لاحق ہیں،اس لئےاس کےتحفظ کےلئےموثراقدامات کی ضرورت ہے۔

ان قیمتی اور نایاب نسل کے کچھووں کی نسل کشی کا اہم سبب ٹرالر مافیا کے پاس ماہی گیری میں استعمال ہونےوالے ممنوعہ جال ہوتےہیں، ان جالوں میں روزانہ اس قسم کے نایاب آبی جانور پھنس کر مر جاتے ہیں۔عبدالرحیم کے مطابق گرین کچھوے کو سانس لینے کےلئےہر پانچ دس منٹ کےبعد سطح سمندر پر آناپڑتاہے،اور ماہی گیروں کےنہ نظرآنےوالے جال میں پھنس جانےکی وجہ سے اس کےلئےیہ ممکن نہیں رہتا کہ سطح سمندر پر آسکےجس کی وجہ سے اس کی موت واقع ہوجاتی ہے۔

انھوں نے مزید کہا کہ گرین کچھوےکی یہ نسل اس قدر نایاب ہےکہ تقریباً ایک ہزار انڈوں میں سےایک کچھوا ہی زندہ رہتاہے، کچھ لوگ بیماریوں سے علاج کے لیے گرین کچھوے کےگوشت کا استعمال کرتے ہیں اور کچھ فالج سےعلاج کےلئےخون بھی ،جبکہ اس کےانڈے بھی کھانے کےلئے استعمال میں لائے جاتے ہیں جو یہ کچھوا ساحلی ریت پر دیتا ہے ۔اسسٹنٹ ڈائریکٹر ماحولیات جی ڈی اے عبدالرحیم نےبتایا کہ کچھوے کی اس نسل اور دیگرسمندری حیات اور ان کےتحفظ کےلئے جامعہ کراچی کےشعبہ زووالوجی کےپروفیسر ڈاکٹرعبدالکریم گبول تحقیق کررہے ہیں۔

ان کا کہناتھا کہ دنیا کے باقی ممالک میں سمندری اور جنگلی حیات کو بچانے کے لئے طرح طرح کے سائنسی بنیادوں پر ریسرچ کی جاتی ہے لیکن افسوس ہمارے ہاں ایسا کچھ نہیں ہورہا،بلکہ ہم اپنے ہاتھوں سے ان کی نسل کشی کر رہے ہیں،ان کا یہ بھی کہناتھا کہ سمندری حیات اورخاص طور پر گرین کچھوے کو شدید خطرات لاحق ہونے سے نبردآزما ہونے کی موثر کوششیں نہ کی گئیں تو آئندہ چند سال میں کچھوے کی یہ نسل معدوم ہونےکاخدشہ ہوگا۔

تازہ ترین