• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

بدھ کے روز میری طبیعت ناساز رہی کہ اب عمر کے اِس حصے میں داخل ہو گیا ہوں جہاں عناصر میں اعتدال نہیں رہتا۔ کوئی پونے تین بجے سہ پہر ٹی وی کا سوئچ آن کیا، تو اعلان ہو رہا تھا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کا ڈویژنل بینچ جناب نوازشریف، اُن کی دختر مریم اور اُن کے داماد کیپٹن (ر) محمد صفدر کی اپیل کا فیصلہ تین بجے سنائے گا جس میں سزا معطل کر دینے کی درخواست کی گئی تھی۔ یک لخت میرے اندر زَبردست ارتعاش پیدا ہوا اور میں نے اپنی تمام تر توجہ ٹی وی پر مرکوز کر دی۔ تین بجے جج صاحبان کمرۂ عدالت میں آئے اور فاضل جسٹس اطہر من اللہ نے مختصر فیصلہ سنایا کہ سزا معطل کی جاتی ہے اور تینوں قیدی ضمانت پر رہا کیے جاتے ہیں۔ یہی فیصلہ متوقع تھا کہ جج صاحبان نیب پراسیکیوٹرز سے جس انداز کے سوالات پوچھ رہے تھے، اُن سے پورے مقدمے کا بوداپن اور سزاؤں کی کمزور بنیادوں کا احوال کھل کر سامنے آ گیا تھا۔ یہ حقیقت احتساب عدالت کے جج جناب محمد بشیر نے اپنے فیصلے میں بھی تحریر کی تھی کہ سزا مفروضوں پر دی جا رہی ہے اور ملزموں کے خلاف کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہیں ہوا۔ اِن اعترافات کے باوجود میاں نوازشریف کو دس سال، مریم نواز کو سات سال اور کیپٹن (ر) محمد صفدر کو ایک سال کی سزا سنائی گئی اور بھاری جرمانے بھی عائد کیے گئے۔ یہ 6جولائی 2018ء کی گہری ہوتی ہوئی شام تھی اور جب فیصلہ سنایا گیا تو آزاد قانونی حلقوں نے بیک زبان کہا کہ سخت بےانصافی ہوئی ہے۔ جناب نوازشریف اور مریم نواز اس وقت لندن میں تھے جہاں بیگم کلثوم نواز سرطان کے مرض میں مبتلا، وینٹی لیٹر پر بےہوش پڑی تھیں۔ باپ بیٹی کے لیے ان کی زندگی کا یہ نازک ترین لمحہ تھا۔ ایک طرف بیگم کلثوم بسترِ مرگ پر تھیں اور قریبی رشتوں کا اوّلین تقاضا یہی تھا کہ وہ آخری دموں میں بیمار کی تیمارداری کریں اور لندن ہی میں رہیں۔ دوسری طرف اُنہیں کڑی سزائیں سنا دی گئی تھیں جن کا سامنا کرنے اور قومی سیاست کو اضمحلال سے بچانے کے لیے اُن کا وطن آنا ضروری ہو گیا تھا۔

نوازشریف اور اُن کی صاحبزادی بخوبی جانتے تھے کہ پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھتے ہی وہ گرفتار کر لیے جائیں گے، مگر اُنہوں نے وطن کی آواز پر لبیک کہا۔ روانگی سے پہلے نوازشریف اسپتال گئے اور اپنی عظیم رفیقۂ حیات کے سرہانے کھڑے ہو کر باربار آواز دی کہ کلثوم آنکھیں کھولو، میں باؤجی تم سے مخاطب ہوں۔ پھر اُن کی تندرستی کی دعا کی اور لاہور کی طرف روانہ ہو گئے۔ اس وقت کی ویڈیو اِن دنوں مختلف ٹی وی چینلز پر دکھائی جا رہی ہے جس میں گہری بےبسی بھی ہے اور جبر کا مقابلہ کرنے کا بےپایاں عزم بھی۔ یہ وہ دن تھے جب نگران حکومتیں برسرِ اقتدار تھیں۔ نوازشریف اور مریم نواز کے لاہور آنے کی خبر پھیلی، تو ہزاروں سیاسی کارکن پُرامن احتجاج کے لیے جمع ہو گئے۔ دکھ اِس بات کا ہے کہ نگران وزیراعلیٰ پنجاب پروفیسر ڈاکٹر حسن عسکری رضوی جو علمی حلقوں میں بڑے احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے، اُن کے دورِ حکومت میں پُرامن مظاہرین پر دہشت گردی کے مقدمات بنائے گئے اور بڑی تعداد میں گرفتار کر لیے گئے۔ اس سے کہیں زیادہ ہولناک بیان پنجاب کے نگران وزیرِداخلہ جناب شوکت جاوید نے دیا کہ کوئی شخص ایئرپورٹ کے قریب جانے کی حماقت نہ کرے کیونکہ ہم نے رکاوٹوں میں بجلی چھوڑ دی ہے۔ اِس اعلان سے جلیانوالہ باغ کا لرزہ خیز سانحہ یاد آ گیا اور شدت سے احساس ہوا کہ 2018ء میں بھی انگریزوں کا بدترین سامراجی نظام لوٹ آیا ہے۔ ستم ڈھانے کا جو سلسلہ 2017ء میں شروع ہوا، وہ ایک تسلسل کے ساتھ جاری رہا۔ کیپٹن (ر) محمد صفدر پاکستان میں تھے، اُنہوں نے بڑی بہادری اور سج دھج سے گرفتاری دی۔ مریم نواز کی گرفتاری کے بعد اُنہیں سہالہ ریسٹ ہاؤس میں رکھنے کا فیصلہ ہوا، مگر شیردل بیٹی نے اپنے والد کے ساتھ جیل میں رہنے پر اصرار کیا۔ باپ بیٹی اور دَاماد الگ الگ بیرکوں میں رکھے گئے اور اُن کی آپس میں ملاقات بھی ہفتے میں صرف ایک بار ہوتی تھی۔

وقت پابجولاں گزر رَہا تھا کہ 11ستمبر کی سہ پہر بیگم کلثوم کا چراغِ ہستی گُل ہونے کی خبر آئی جو اُن کے پس ماندگان پر بجلی بن کے گری۔ یہ انتہائی کڑی آزمائش کا لمحہ تھا۔ ایک طرف اندوہ غم کے پہاڑ اور دوسری طرف عزم واستقامت کی فلک بوس چٹانیں۔ وزیراعظم عمران خاں نے اجلاس کے دوران شریف خاندان کے لیے اِس عظیم سانحے کو صبر کے ساتھ برداشت کرنے اور مرحومہ کی مغفرت کی دعا کی۔ اُنہیں اسی وقت اسیروں کو پیرول پر رہا کرنے کے احکام جاری کر دینے چاہئے تھے، مگر ایسا نہیں ہوا، جبکہ پنجاب حکومت نے بھی اِس طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ نوازشریف اور اُن کی صاحبزادی نے پیرول پر رہائی کی درخواست دینے سے انکار کر دیا کہ وہ کوئی رعایت لینے پر کسی طور تیار نہیں تھے۔ جناب شہبازشریف نے درخواست پر دستخط کیے، تو پہلے بارہ گھنٹوں کے لیے پیرول پر رہا کیے گئے جس میں بعدازاں پانچ روز کی توسیع کر دی گئی۔

13ستمبر کو چار سے چھ بجے شام نوازشریف سے تعزیت کے لیے وقت مقرر کیا گیا۔ میں اپنے دوست پروفیسر شبیر احمد خان اور اپنے بیٹے کامران الطاف کے ہمراہ تعزیت کے لیے تین بجے روانہ ہوا۔ گاڑیوں اور پیدل چلنے والوں کا رش اِس قدر زیادہ تھا کہ ہمیں پہنچتے پہنچے ڈھائی گھنٹے لگے اور نوازشریف صاحب سے تعزیت نہ کی جا سکی۔ سرِراہ جناب عطاء الحق قاسمی مل گئے اور اُنہوں نے ہمیں اپنی کار میں بٹھا لیا۔ اِس دوران ہم جس شخص سے ملے، اُس کا ایک ہی احساس تھا کہ عوام نے زندگی کا ثبوت دے دیا ہے جس کے یقیناً صحت مند اثرات مرتب ہوں گے۔ اگلے روز ہجومِ بےحدوحساب تھا۔ بیگم کلثوم کی رحلت نے دلوں میں ایک بلاخیز جذبہ موجزن کر دیا تھا اور وہ اُمڈے چلے آ رہے تھے۔ اتوار کی دوپہر محبی محمد مہدی کی معیت میں ہم تعزیت کے لیے جاتی امرا روانہ ہوئے۔ نوازشریف اور شہبازشریف سے مہمانوں کے ساتھ فاتحہ خوانی کی۔ میں نے نوازشریف صاحب سے کہا آپ نےکمال وقار اورعزیمت کا ثبوت دیا ہے، مجھے یقین ہے کہ قانون کی بالادستی قائم ہو گی اور قوم کے لیے اچھے دن آئیں گے۔ 19ستمبر کی سہ پہر اسلام آباد ہائی کورٹ کا ایک اچھا فیصلہ آ گیا جس میں جمہوریت اور آزاد عدلیہ کے تصور کی فتح ہوئی اور ناانصافیوں کی بساند کو ایک مشک بار جھونکا بڑی حد تک تحلیل کر گیا ہے۔ اس فیصلے نے عدلیہ پر عوام کے اعتماد میں اضافہ کیا ہے اور قوی اُمید پیدا ہوئی ہے کہ جملہ ادارے عدلیہ کے فیصلے کی روح تک پہنچ جائیں گے اور مستقبل کی صورت گری میں دوراندیشی اور حقیقت پسندی سے کام لیں گے۔ نوازشریف کو عاشورہ کے بعد پورے تحمل سے ایک ایسا پروگرام ترتیب دینا چاہیے جو افراتفری کے بجائے جمہوریت اور سول بالادستی کی راہیں کشادہ کرے۔

یہاں تک لکھ چکا، تو معاً خیال آیا کہ میں نے برادر محترم حسن صہیب مراد شہید کے بارے میں لکھنے کا وعدہ کیا تھا، لیکن میں اُن کے بارے میں جس قدر تحقیق کر رہا ہوں، ان سے اُن کی شخصیت کے کمالات فزوں تر ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ علم و تحقیق کے وسیع میدان میں ایک سرمدی چشمے کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اُن کے فیوض وبرکات کا شمار جلد کیا جائے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین