• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

نمبر ون اکبر روڈ، نئی دلّی۔یہ تھا اس مکان کا پتہ جہاں اتنے لمبے چوڑے ملک کے حاکم یعنی وزیر اعظم رہتے تھے۔ اور جہاں ہم کل شام کی چائے پر مدعو تھے۔ شہنشاہ اکبر سے منسوب اس شاہراہ پر حاکم وقت کی رہائش گاہ کیسی ہوگی، ذہن چھوٹے بچوں کی طرح دیر تک تصویریں بناتا رہا۔دلّی تو ویسے بھی بادشاہوں کا شہر رہا ہے۔ وزیر اعظم کو اپنے لئے نئی رہائش گاہ بنانے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ سب کچھ بنابنایا موجود ہے۔ اس مہنگائی کے زمانے میں شاہانہ انداز کی عمارتیں کون بنوا سکتا ہے۔ سوچوں کے سمندر میں کچھ ایسی ہی لہریں موجزن تھیں کہ ٹیلی وژن پر خبر چلی کہ برطانیہ کے وزیر اعظم دلّی میں بھارت کے وزیر اعظم سے ملنے ان کی رہائش گاہ پر پہنچے۔ ہم سنبھل کر بیٹھ گئے اور اگلے منظر کی راہ تکنے لگے۔ دیکھا کہ ایک عام سے مکان میں ایک معمولی سے کمرہء ملاقات میں دونوں وزرائے اعظم بیٹھے باتیں کررہے ہیں۔ بیٹھنے کیلئے وہاں بید کی بنی ہوئی کرسیاں رکھی تھیں جن پر شہر کے بازار سے خریدے گئے کشن پڑے تھے۔ وہی بید کی کرسیاں جو عام طور پر چھوٹی صنعتوں سے بن کر نکلتی ہیں۔ وہی کُشن جن پر بیٹھا جائے تو دب جاتے ہیں اور ہر بار انہیں پھلانا پڑتا ہے۔ اب سنئے ملاقاتیوں کے اسی کمرے میں اگلے روز ہمارا جانا کیونکر ہوا۔ اس موقع پر علی صدیقی مرحوم یاد آئے جو حضرت علیؓ کے بڑے ہی عقیدت مند تھے اورشہر دلّی میں سال کے سال جشنِ مولود کعبہ کے عنوان سے امیرالمومنین کی ولادت کا جشن اس شان سے مناتے تھے کہ دنیا دیکھا ہی کرے۔ دنیا بھر کے ہر مسلک اور ہر عقیدے کے اکابرین بلائے جاتے تھے جو جشن کی مناسبت سے خراج عقیدت ادا کیا کرتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ اس تقریب میں ہندو، جین، بودھ اور عیسائی خصوصیت سے مدعو ہوا کرتے تھے۔ اُس برس لندن سے میں اور برادر افتخار عارف بلائے گئے تھے۔ تقریب میں شرکت کے لئے بھارت کے وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کو بھی مدعو کیا گیا ہوگا۔ وہ تو نہ آسکے البتہ انہوں نے علی صدیقی مرحوم کے اصرار کو دیکھتے ہوئے جشن کے مندوبین کو اپنے گھر چائے پر مدعو کرلیا۔ اس طرح ہمارا نمبر ون ،اکبر روڈ جانا ہوا اور گئے تو وہی ٹی وی والا منظر دیکھا۔ سڑک کا نام بڑے شہنشاہ کے نام پر رکھا گیا تھا مگر وہاں بادشاہوں والی کوئی بات نہیں تھی۔ وزیر اعظم جو خود بھی شاعر تھے اور کھلے ذہن کے مالک تھے، بڑے تپاک سے ملے، گھل مل کر باتیں کیں اور پرائم منسٹر ہاؤس کے لان میں جو بہت لمبا چوڑا نہیں تھا اور جسے کچھ بہت سنوار کر بھی نہیں رکھا گیا تھا، ہم سب کے ساتھ چائے پی۔

اب سنئے اس تازہ گھاؤ کا ذکر جو ہم نے ان ہی دنوں کھایا۔ہوا یہ کہ ہم نے زندگی میں پہلی بار شہر اسلام آباد میں جسے دارالحکومت کہئے، ٹیلی وژن پر اسلامی جمہوریہ کے وزیر اعظم کی وہ قیام گاہ دیکھی کہ جتنی بار بھی دکھائی گئی، ٹی وی والے پس منظر میں شہنشاہ اکبر کے شاہانہ جلوس کی موسیقی بجاتے رہے۔باقی عمارت کو تو جانے دیجئے، ہم اس کی چھت سے آویزاں فانوس ہی کو دیکھ کر ششدر رہ گئے جس کے آگے قائد اعظم کے مرقد پر لگا چینی فانوس بھی شرم سے سر نیوڑھادے۔

کسی معمار نے ایسے شاہانہ سبزہ زاروں کے بیچ ایسا محل اٹھایا ہے کہ حیراں ہوں کہ دو آنکھوں سے کیا کیا دیکھوں۔ لق و دق لان، قطار در قطار کیاریاں جن کے پودوں کی ایک ایک پتّی قرینے سے تراشی گئی ہے۔دریچے ہی دریچے ، ستون ہی ستوں، ادھر سے اُدھر تک راہ داریاں ،یہاں سے وہاں تک غلام گردشیں،چمکتے دمکتے فرش اور ایسا فرنیچر کے صندلی اور آبنوسی کہیں جسے جو فرانس میں نہیں تو اٹلی میں ضرور بنا ہوگا۔ ایسے ایسے پرفضا منظر دیکھ کر ایک بار جی چاہا کہ محو رقص ہوجاؤں پر نگاہ اپنے ہی پیروں پر پڑی تو وہیں ٹھٹھک کر رہ گیا ۔ لندن میں ایک ہی جیسے قطار درقطار بنے مکانوں کے بیچ پھنسے ہوئے اپنے گھر کو دیکھا تو شکر ادا کیا کہ اسی تنگ و تاریک مکان نے مجھے اور میرے تین قد نکالتے ہوئے بچوں کو وہ گوشہ عافیت عطا کیا جس کے آگے مرگلہ کے دامن میں موتی کی طرح ٹانکے ہوئے قصر ہیچ، بالکل ہی ہیچ ہیں۔وہ عمارت ہی کیا جس میں دولت، جاہ و حشم اور شان و شوکت ، یہ سارے کے سارے رہتے ہوں، راحت اور سکون نہ آباد ہوں۔ہم جیسے ہیں، جہاںہیں، یہیں بھلے۔

کچھ عرصہ ہوا ہم سلطنت ِ عثمانیہ کی عظمت کو سلام کرنے قسطنطنیہ گئے۔ شہر استنبول کے تو ہم یوں بھی دل دادہ ہیں، ہم نے سلاطین کی قیام گاہیں دیکھنے کیلئے ایک گائیڈ کو ہمراہ لیا اور نکل کھڑے ہوئے۔ ساری عمارتیں ویسی ہی تھیں جیسی ہم نے سوچی تھیں مگر اچانک ذہن میں ایک بجلی سی کوندی۔ محل تو تمام کے دیکھے مگر سلاطین کے شب خوابی کے عظیم الشان کمرے نظر نہیں آئے۔ہم نے اپنے ترک رہنما سے پوچھا کہ سلطان کے بیڈروم کہاں ہیں؟وہ بولا کہ مجھ سے پہلی بار کسی نے یہ بات پو چھی ہے تو اس کا جواب سنئے۔ سلاطین کو اپنی ذاتی عمارتیں بنانے کا شوق نہیں تھا۔ وہ سارا زور عبادت گاہوں پر دیتے تھے اور خودعام چوکور کمروں میں رہا کرتے تھے جن میں آرائش کا کوئی اہتمام نہیں ہوتا تھا۔ آپ کو کہیں بھی ان کے شاندار بیڈ روم نہیں ملیں گے۔

ہم تو اپنے برطانیہ کے وزیر اعظم کو جانتے ہیں ۔ وہ بھی ہماری طرح ایک جیسے قطار میں بنے ہوئے مکانوں کے بیچ پھنسے ہوئے ایک مکان میں رہتا ہے۔ اب تو خیر مارا ماری بڑھنے کے بعد اس کی گلی میں عام لوگوں کی آمد و رفت بند ہوگئی مگر ہم نے وہ دن دیکھے ہیں جب بھانت بھانت کے مظاہرین اسکے دروازے کے باہر گلے پھاڑ پھاڑ کر نعرے لگایا کرتے تھے اور یہ بھی یاد ہے کہ دودھ والا وزیر اعظم کے دروازے کے باہر دودھ کی بوتلیں رکھ کر جاتا تھا۔ کئی بار یہ ہوا کہ گاڑی دستیاب نہ تھی تو وزیر اعظم سڑک پار کرکے پیدل ہی پارلیمان چلے گئے۔

یوں ہی چلنے والے اپنے ملک اور اپنی قوم کا نظام چلاتے ہیں اور ہر چلتی ہوئی چیز کو گاڑی نہیں کہتے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین