• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
نیپرا نے کہا ہے: بجلی بحران 2020ء تک جاری رہے گا۔ 23 ہزار کے بجائے 14 ہزار میگا واٹ پیدا کی جا رہی ہے۔ 40 فیصد چوری کی نذر ہو جاتی ہے۔
یہ نیپرا نے کہیں سیاسی بیان تو نہیں دیا کہ آنے والی حکومت سے کوئی پوری بجلی نہ مانگے اور لوگ باگ ذہنی تیاری کر لیں کہ اب کسی بھی برسراقتدار آنے والی پارٹی کے ذمہ بجلی کی فراہمی نہ ہو گی۔ منطق کی زبان میں اس کو ہی ”دفع دخلِ مقدر کہتے ہیں“ یعنی اگر کوئی سقم اندر موجود ہے تو اس پر چیں بچیں ہونے کا پہلے ہی تدارک کیا جائے، اگر 2020 تک بھی بجلی کی کمی پوری نہ ہوئی تو یہاں باقی ساری کمیاں بھی موجود رہیں گی۔ اب سیاستدانوں کو جو ایک خوف تھا بجلی کی مناسب مسلسل فراہمی کا وہ بھی نہ رہا۔
رات دن گردش میں ہیں سات آسمان
ہو رہے گا کچھ نہ کچھ گھبرائیں کیا
بعض لوگ جو نئی شادی کے شوقین ہوتے ہیں اور پہلے ہی ان کی فیملی مکمل ہوتی ہے، وہ پھر نس بندی کرا لیتے ہیں، تاکہ وہ مزے لوٹیں اور نئی دلہن اولاد کو ترسے جو کہ ایک خاتون کی فطری خواہش ہوتی ہے۔ نیپرا نے بھی خدا جانے کس غیبی اشارے پر نئی برسراقتدار آنے والی جماعت کے لئے پہلے ہی بجلی کی نس بندی کر دی ہے۔ اس طرح حکمران حسب سابق لوٹ مار سے لطف اندوز ہوں گے اور عوام جنہوں نے ووٹ بجلی کی فراہمی کی شرط پر نہیں دینا وہ ملکہ نور جہاں مرحومہ کی طرح دن کو بھی تاریکی کا لطف اٹھائیں گے نور جہاں کے مقبرے میں بھی جہانگیر کے بعد سے اب تک لوڈ شیڈنگ ہے،
دن کو بھی جہاں شب کی سیاہی کا سماں ہے
کہتے ہیں یہ آرام گہہِ نور جہاں ہے
پاکستان بھی کبھی بجلی رانی کی رفت رفت سے بے خبر تھا، اور اب اس کی آمد آمد کا منتظر ہے، بجلی نہیں آئے گی کہ وہ حکمرانوں کے پسندیدہ انسانوں کے انگ انگ میں رچ جائے گی۔ اور باقی جو بچے گی وہ کالے چور لے جائیں گے۔ حکمران اپنے محلات کو دیو ہیکل جنریٹروں سے روشن رکھیں گے کہ تیل ہی بڑا ہے۔
####
تائیوان کے ایک ہم جنس جوڑے نے اپنی شادی کے جائز ٹھہرانے کے لئے تائیوان کی عدالت سے رجوع کر لیا۔
آزادی تو اب تقریباً ہر انسان کو مل چکی ہے، اور اب یہ اتنی بڑھ گئی ہے کہ اس کا گراف سدرہ کوچھونے لگا ہے، فزکس کے اصولوں کے مطابق اب اس کا درجہ گرے گا اور انسانی معاشرت کا میٹر ہی پیمائش دینے سے عاجز ٹوٹ پھوٹ جائے گا۔ ممکن ہے ہم جنس پرستوں کے پاس یہ دلیل ہو کہ جب ایک انسان دوسرے کو خرید سکتا ہے تو ایک مرد کی مرد سے شادی کیوں نہیں ہو سکتی۔ کہتے ہیں عشق نہ پچھے ذاتاں، تو ظاہر ہے وہ جنس کیوں پوچھے گا کیونکہ عشق تو ہو جاتا ہے کیا نہیں جاتا
عشق پر زور نہیں ہے یہ وہ آتش غالب
کہ لگائے نہ لگے اور بجھائے نہ بنے
ویسے دنیا کی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لئے ایسی شادیوں کی اجازت نسخہ کیمیا ہے، لیکن اس طرح شاید جو پہلے سے سونا موجود ہے وہ کہیں مٹی نہ بن جائے، ہم اس بحث میں آگے نہیں جانا چاہتے کہ کہیں آگ نہ لگ جائے، بہرحال یہ تو اب تائیوان کی عدالت پر ہے کہ وہ یہ ہم جنسی شادی جائز قرار دیتے ہیں یا نہیں اگر جائز ہو گئی تو پھر جنگل کے ہنس بھی ناچیں گے گائیں گے
دو ہنسوں کا جوڑا مل گیو رہے
غضب مورے راما غضب ہویو رے
انسان کے اندر رحمان بھی ہے، شیطان بھی، اور اس کو اختیار ہے چاہے رحمان کی بات مانے چاہے شیطان کی، البتہ شیطان بہت فنکار ہے وہ ہر گناہ کو نیا رنگ دینے کے لئے اپنی تخلیقی صلاحیت استعمال کرتا ہے اور انسان سے وہ کچھ کراتا ہے جس سے نفس تو خوش ہو جاتا ماگر نَفَس رکنے لگتا ہے۔
####
وفاقی وزیر اطلاعات کائرہ نے فرمایا ہے: انتخابات کے بعد اکثریتی جماعت حکومت بنائے گی۔ قائمہ کمیٹی نے ہر گھر پر 5 روپے ریڈیو فیس عائد کرنے کی سفارش کر دی،
اے خاصہ خاصان رسول وقتِ دعا ہے
اِن قائمہ کمیٹیوں سے مرِی جان چھڑا دے
ظاہر ہے جب ظلم و زیادتی اور حکومت کی جلبِ منفعت دیوانی ہو جائے تو پھر امت اپنی بپتااور کس سے کہے، بلکہ اب تو وقت آ گیا ہے کہ حکمرانوں سیاستدانوں کا کیس عوام دربارِ رسالت میں پیش کر دیں تاکہ یہ ملکی درباروں کی نادر شاہیاں تو ٹھکانے لگیں ہر گھر پر 5 روپے ریڈیو ٹیکس لگانے سے مراد ہے کہ ہر خاندان کے کمانے والے سے پانچ روپے ریڈیو فیس نچوڑی جائے گی، اور اپنے مشکیزے دو شیزے بھرے جائیں گے، پہلے ہی دو ظلم بجلی کے بلوں میں درج ہیں، ایک فیول ایڈجسٹمنٹ جس کا کوئی اخلاقی قانونی جواز نہیں، دوسرے ٹی وی فیس جبکہ وہ کیبل آپریٹرز کو دے دی جاتی ہے جب سرکار کا ٹی وی بھی کیبل والے دکھا دیتے ہیں پھر یہ ٹی وی فیس کیا ٹی وی سیٹ رکھنے کی پاداش میں لیا جا رہا ہے۔ ہے کوئی مرد قلندر یا جری عوام میں سے کوئی جو اس جگا تھک لگا ٹیکس سے لوگوں کی جان چھڑائے، 5 روپے کو اگر 18 کروڑ عوام سے ضرب دی جائے تو اللوں تللوں کے لئے کتنی بھاری رقم حاصل ہو جائے گی، گویا زرداری کی دلداری ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے لئے حواریوں کو اتحادیوں میں بدلنے کا شوق دلا رہے ہیں کہ دیکھو وہ کیسے ان کے لئے مزید پانچ برس پتھروں میں سے چشمے نکالیں گے۔ لو کائرہ کو بھی علم غیب ہو گیا ہے، وہ بھی کہتے ہیں آئندہ حکومت وہ اکثریتی جماعت بنائے گی جو ذات کی اقلیتی ہو گی۔ کائرہ کیا طاہرہ ہیں کہ ہر روز پنڈال سجا کے کہتے ہیں
جھانجھر پھبدی ناں مٹیار بناں
مٹیارِ اقتدار کے حاصل کرنے کا ٹاسک وہ خوب نبھا رہے ہیں۔ مبارک ہو۔
####
ایک مضمونچہ سا چھپا ہے جسے امریکی نائب وزیر خارجہ ٹامس نائیڈز اور پاکستان کے وزیر خزانہ عبدالحفیظ شیخ نے مل کر مرتب کیا ہے، اور اس کا عنوان رکھا ہے پاک امریکہ تعلقات کا نیا باب:
جہاں بہت زیادہ نفرت ہو درحقیقت وہاں بہت زیادہ محبت ہوتی ہے۔ اب ہمیں مان لینا چاہئے، کہ
مفت ہوئے بدنام کسی سے ہائے دل کو لگا کے
امریکہ کی محبت میں ہم 1947ء سے گرفتار ہیں اور ایک ہم ہی کیا پوری امہ کا یہ حال ہے
ہم ہوئے کہ تم ہوئے کہ میر# ہوئے
سب اس کی زلف کے اسیر ہوئے
پھر ہمیں کیا تکلیف ہے کہ جب یہاں اسلامی رفاہی نظام بھی نہ آ سکا تو مکمل طور پر امریکی نظام، کلچر اور غرضیکہ ہر چیز اپنا لیں۔ کم از کم عاقبت نہ سہی یہ دنیا تو خوب سنور جائے گی۔ یہ جو ہم کفر و اسلام کی درمیانی منزل پر ایک زمانے سے رکے پڑے ہیں اس سے کیا حاصل، نہ خوشحالی اور نہ حسن و عشق کی ہولی، لوگ اپنا نیا سال خوشیوں سے شروع کرتے ہیں، اور ہم غم و اندوہ سے۔ حالانکہ اس ماہ مبارک میں تو مسلمانوں نے دنیا کو جمہوریت عطا کی اور شہید ہونے والے امر ہو گئے، اور ملوکیت پر ایسی ضرب کاری لگائی کہ آج بھی اگر کہیں ہے تو اسے نفرت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، امریکہ کا سواگت کریں کھلے دل سے، یا پھر اس سے کٹی کریں انگلی کٹا کے، تاکہ سند رہے، اگر ایسا نہیں کر سکتے تو پھر کیوں بار بار اس کے صدقے واری بھی جاتے ہیں، اور جب وہ ایک جان دو قالب ہونے کی آفر دیتا ہے تو یہ بھی کہتے ہیں
میرے ہاتھوں میں نو نو چوڑیاں ہیں
ذرا ٹھہرو سجن مجبوریاں ہیں
####
تازہ ترین