اسلام آباد(طاہر خلیل)وزیراعظم عمران خان کی پیشکش پر پاک بھارت وزرائے خارجہ کی اقوام متحدہ جنرل اسمبلی کے موقع پر سائیڈلائن مجوزہ بات چیت جنوبی ایشیا میں پائیدار اور مستقل امن کے قیام اور روشن مستقبل کی جانب پیش قدمی ہوسکتی ہے ۔ وزیراعظم نے بھارتی ہم منصب کو ان کے تہنیتی پیغام کے جواب میں جو خط بھیجا اس میں بھارتی قیادت کو باور کرایا گیا کہ بھارت کو کشمیر سمیت تمام تصیفہ طلب معاملات پر مذاکرات شروع کرنا چاہیئں اگر بھارت اس جانب ایک قدم بڑھائے تو پاکستان دو قدم پیش رفت کرے گا۔ نئی حکومت بننےکے بعد نیو پارک میں دونوں ملکوں کا خارجہ تعلقات کے شعبے میں اعلیٰ سطح پر یہ پہلا براہ راست رابطہ ہو گا۔ اقتدار میں آنے کے فوراً بعد تحریک انصاف کی حکومت نے جنوبی ایشیا کے خطے کو جنگ کی ہولناکیوں سے بچانے اور عوام کے روشن مستقبل کیلئے بھارت کو کشمیر سمیت تمام تنازعات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی دعوت دی۔بھارتی قیادت کو جان لینا چاہیے نفرت کے جذبات ابھارنے اور خطے میں جنگی جنون کو ہوا دینے سے یہاں بسنے والے کروڑوں عوام کی زندگی اجیرن کرنے کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو گا۔ جنگیں مسائل کا حل نہیں ہوتیں بھارت کو بالاخر امن کے راستے پر لوٹ کر آنا ہوگا۔وزیراعظم کے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کے دورے کے حوالے سے وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی بروقت اور مفصل پریس کانفرنس نے بہت سے ابہام دور کردیئے۔پاک سعودی تعلقات میں سی پیک کی شمولیت، تعلقات میں نئی سٹرٹیجک گہرائی کی نشاندہی کر رہی ہے ۔ وزیر اعظم عمران خان کو سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات میں سٹیٹ گیسٹ کی حیثیت سے جو عزت و احترام دیا گیا اس سے عرب دنیا میں پاکستان کا وقار بلند ہوا ہے۔ سعودی عرب اور یو اے ای کی قیادتوں کے ساتھ بات چیت میں افغانستان میں امن اور استحکام کی کوششوں میں پاکستان کے کردار کو واضح کیا گیا۔ اس ضمن میں اصل معاملہ افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانا ہے۔سعودی عرب کے دورے سے قبل وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغانستان کا دورہ کیا تھا جس میں افغانستان میں امن ، سلامتی اور استحکام کیلئے افغان طالبان سے مذاکرات میں پاکستان کے کردار کے حوالے سے بات چیت کی تھی۔افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے دونوں ملکوں کے جید علمائے کرام بھی آئندہ چند روز میں ملاقات کرنے والے ہیں حالیہ منظر نامے کا سب سے اہم پہلو گزشتہ روز افغان صدر اشرف غنی کا بھارت کا ہنگامی دورہ تھا۔ اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے کہ امریکا افغانستان میں طاقت کے زور پر امن کے قیام میں ناکام ہو چکا ہے اسی لئے طالبان سے مذاکرات کا سلسلہ شروع کرنے پر زور دیا جارہا ہے۔پاکستان نے بھارت کی جانب سے افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کے ناقابل تردید ثبوت امریکی حکام کو فراہم کر دیئے ہیں مگر اسکی خاموشی ظاہر کرتی ہے کہ دہشت گردی کے فروغ میں اس نے بھارت کوفری ہینڈ دے رکھا ہے ، بھارت ، امریکا اور افغانستا ن اگر دہشت گردی کے خاتمے کیلئے مخلصانہ کردار ادا کریں تو کوئی وجہ نہیں کہ خطے میں مستقل اور پائیدار امن قائم نہ ہوسکے لیکن یہ بات کسی سے پوشیدہ نہیں کہ بھارت ، افغانستان گٹھ جوڑ خطے میں مستقل عدم استحکام کا موجب بنا ہے جبکہ پاکستان کا شعوری موقف ہے کہ پاکستان اور افغانستان کو نہ صرف دہشت گردی کے خلاف جنگ کو مل کر لڑنا ہو گا بلکہ منشیات کی سمگلنگ اور ناپسندیدہ عناصر کی آمد و رفت کنٹرول کرنے اور سیکورٹی چیلنجز کا مشترکہ طور پر مقابلہ کرنا ہوگا اب جبکہ جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقعہ پر پاک بھارت وزرائے خارجہ کی ملاقات طے پاچکی ہے۔توقع کی جانی چاہئے کہ ان تعلقات کو برابری کی بنیاد پر آگے بڑھایا جائے گا اور دونوں ممالک کے مابین جامع مذاکراتی عمل کی بحالی کے ذریعے سفارتی حد تک اچھے تعلقات کا آغاز ہو سکے گا۔