• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں ایک سو روپے کا نوٹ ہوں۔ لوگ کہتے ہیں کہ آجکل کی ہوشربا مہنگائی کے دور میں میری کوئی وقعت نہیں رہی۔سچ ہی تو کہتے ہیں!! ایک زمانہ تھا جب میں ایک عام متوسط گھرانے کے مہینے بھر کے خرچے کیلئے کافی ہوتا تھا، لیکن آجکل تو اسلام آباد جیسے مہنگے شہر میں میرا ایک کلو دودھ بھی نہیں آتا۔آپ کو تو پتہ ہے کہ میں روزانہ گھاٹ گھاٹ کا پانی پیتا ہوں اور رنگ رنگ کے لوگوں سے میرا واسطہ رہتا ہے، لیکن نہ توکوئی جگہ ایسی ہے جہاں میری کوئی عزت بچی ہواور نہ ہی کوئی ایسا شخص باقی بچا ہے جس کی نظر میں میری کوئی قدر ہو۔ابھی کل ہی ایک ٹیکسی والے نے پمز ہسپتال سے ایک مریض کو اٹھایا اور آبپارہ کے پچھواڑے والی گلی میں اُتارا، مریض نے مجھے اپنی گرما گرم جیب سے نکال کر جیسے ہی ٹیکسی والے کے ہاتھ میں تھمایاتو وہ طیش میں آ گیا، کہنے لگا”اس کم بخت کا آتا ہی کیا ہے“۔ میرا تو جیسے دل ہی ٹوٹ گیا ہو۔ کبھی کبھی اپنی اس قدر بے قدری پر میں بہت پریشان ہو جاتا ہوں اور سوچ میں پڑ جاتا ہوں کہ آخر میں نے ایساکیا گناہ کیا ہے جو آج مجھے یہ دن دیکھنا پڑ رہے ہیں۔ اس سارے مایوس کن منظر نامے میں، جہاں ہر اینٹ کے نیچے کسی نہ کسی کروڑ پتی کا بسیر ا ہے، ایک ہی جگہ ہے جس کا خیال رہ رہ کر میری ڈھارس بندھاتا ہے۔ آپ کو شائد یقین نہ آئے ،مجھے خود بھی نہیں آتا، لیکن آج بھی ایک ایساجزیرہ ہے جہاں میں راج کرتا ہوں، جی ہاں!! میری اس چھوٹی سی جنت میں بڑے بڑے سورماؤں نے مجھ سے برسر پیکار ہونے کی کوشش کی، لیکن ابھی تک کوئی بھی میرا بال بیکا نہیں کر سکا۔ نامور وزیروں مشیروں سے لیکربڑے سے بڑے سیٹھوں تک، مشہورو معروف مذہبی عالموں سے لیکر اخلاقیات کے علمبرداروں تک، انتہائی بااصول اور قابل قانون دانوں سے لیکر ایسے ججوں تک جن کی ایمانداری ضرب المثل رہی، ہر کسی کو میری اس جنت سے واسطہ رہتا ہے لیکن کوئی بھی میری طاقت کیلئے خطرہ نہیں بن سکا۔آئیے میں آپ کو اپنی اس جنت کی سیر کراتا ہوں۔ آپ یقیناحیران ہو رہے ہونگے کہ میں آپ کو پتہ نہیں کس دنیا میں لے جاؤں گا۔ ایسی کوئی بات نہیں، یہ آپ کی جانی پہچانی جگہ ہے جسے ہم سب لوگ ضلع کچہری کے نام سے جانتے ہیں۔ یہی وہ جگہ ہے جہاں میرے بغیر آپ ایک قدم بھی نہیں چل سکتے۔مثال کے طور پر اگر آپ کو اپنی فائل کے کسی کاغذ کی نقل چاہئے تو میر ے بغیر اہلمد صاحب اتنے چکر لگوائیں گے کہ چھٹی کا دودھ یاد آ جائے گا۔ میرے بغیر اپنی مرضی کی تاریخ لیکر دکھا دیں، اگر آپکو چھوٹی تاریخ چاہئے ہو گی تو اتنی لمبی ملے گی کہ انتظار میں بوڑھے ہو جائیں گے، اگر لمبی تاریخ چاہئے ہو گی تو اتنی چھوٹی ملے گی کہ ابھی پچھلی تاریخ کی تھکن بھی نہیں اتری ہوگی کہ اگلی تاریخ آدھمکے گی۔آپ میرے بغیر آرڈر ٹائپ کروا کے دکھا دیں ، کوئی ایسا آرڈر ہو جس کی سائل کو بہت جلدی ہوجیسے ضمانت پر رہائی کا آرڈر، تو پھرایسے میں تو میر ے جیسے کئی اور بھی لگ جائیں گے تبھی آرڈر ٹائپ ہو سکے گا ورنہ جیل کی ہوا کا مزہ کئی دن لیتے رہیں۔ اسی طرح آپ میر ے بغیر مچلکہ جمع کروا کے دکھا دیجئے، آپ میرے بغیر روبکار جاری کروا کے دکھا دیجئے، میں آپ کو اپنا استاد مان لوں گا۔
چلیں یہ تو ہو گئے وہ کام جو میر ے بغیر نہیں ہو سکتے ، اب میں آپ کو وہ کام بھی بتائے دیتا ہوں جو میری وجہ سے منٹوں میں ہو جاتے ہیں۔میری بدولت آپ اپنے کیس کو مہینوں بلکہ سالوں تک لٹکا سکتے ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ایک کیس میں معمولی سی ایک درخواست پر میری وجہ سے چھ سال تک تاریخیں پڑتی رہیں۔اس کیس کا مدعی غریب آدمی تھااور اسکے وکیل صاحب کبھی کبھار ہی پیش ہوتے تھے، لیکن مدعا علیہ بڑا سمجھدارشخص تھا، وہ میری قدر کو سمجھتا تھاسو چھ سال تک مدعی کو خوب خوار کرتا رہا۔اگرآپ ملزم ہیں اورکسی وجہ سے ہر تاریخ پر نہیں آ سکتے ، کوئی پریشانی کی بات نہیں،ریڈر کو میرا دیدار کروائیں اور موج کریں،حاضری لگتی رہے گی۔اسی طرح اگر آپ اپنی جائداد کی دستاویز پر کسی کی ضمانت دینے آئے ہوں اور میرا بر وقت استعمال کرلیں تو کافی امکان ہے کہ آپکو آپکی دستاویزبغیر عدالت کی مہر لگے واپس مل جائے گی ، اور آپکو کیا چاہئے!! ضمانت بھی ہو جائے گی اور آپکی لاکھوں روپے کی جائداد پر کوئی بار بھی نہیں آئے گا ۔اپنی عدالتی فائل سے کوئی کاغذ نکلوانا چاہتے ہوں یا پھر کوئی کاغذ شامل کروانا چاہتے ہوں، کوئی بڑی بات نہیں ہے، تھوڑی سی احتیاط اور میں،ہو جائے گا۔اسے بھی رہنے دیجئے، اگرخدانخواستہ آپکسی مقدمے میں پھنس جائیں اور آپکی ضمانت منظور نہ ہو، ایک دفعہ کوشش ضرور کر لیں عدالت کی جعلی مہر اور دستخط کے ساتھ ایک آرڈر تحریر کر لیں ، باقی سارے مراحل میری بدولت آسانی سے طے پا جائیں گے اور آپ جیل سے باہر ہوں گے، زیادہ سے زیادہ یہی ہوگا کہ میرے ساتھ میرے جیسے کوئی دو چار اورنوٹ بھی دینے پڑ جائیں گے۔
میں ضلع کچہری میں اپنی اہمیت سے بہت خوش ہوں لیکن ہر وقت ایک دھڑکا سا لگا رہتا ہے کہ کہیں ضلع کچہری میں بھی باقی جگہوں کی طرح میری اوقات صفر نہ ہو جائے۔ جب سے نئی عدلیہ وجود میں آئی ہے میں خود کو بہت غیر محفوظ محسوس کرتا ہوں کیونکہ جج صاحبان کے طور طریقے اب بہت بدل گئے ہیں۔پہلے والی عدلیہ کے زمانے میں میں نے ایک سیشن جج صاحب کو ایماندار جج صاحبان کے بارے میں یہ کہتے بھی سنا تھا کہ انہیں اتنا انتہا پسند بھی نہیں ہونا چاہئیے کہ اگر کوئی سائل فیصلے سے خوش ہو کر مٹھائی لے آئے تو وہ بھی واپس کر دیں۔ اور آج کل تو یہ عالم ہے کہ جج صاحبان مٹھائی اور آم کی پیٹی سے اس طرح دوربھاگتے ہیں جیسے کوا غلیل سے۔وہ تو شکر ہے کہ میر ا واسطہ عدالتی اہلکاروں تک ہی رہتا ہے اس لئے میری طاقت ابھی تک قائم ہے۔تھوڑا بہت خطرہ تو ابھی بھی لگا رہتا ہے۔ مثلاً پچھلے سال پوری کچہری میں ہائی کورٹ کے رجسڑرار کی طرف سے بڑے بڑے سیاہ بورڈ آویزاں کر دےئے گئے کہ اگر کوئی اہلکار یا پولیس والا آپ سے میرا تقاضا کرے تو فوری طور پر تحریری طور پر انہیں آگاہ کیا جائے۔ ایک دفعہ تومیر ے دل میں ہول اٹھنے لگے لیکن شکر ہے کہ کچھ بھی نہیں ہوا اور اب تو ان بورڈز پر الیکشن لڑنے والے وکلا کے اتنے اشتہار لگ چکے ہیں کہ وہ کسی کو نظر بھی نہیں آتے۔ اسی طرح چند ایک نوجوان وکلا ہر وقت میرے خلاف بغاوت کرنے کی کوئی نہ کوئی سازش تیار کرتے رہتے ہیں لیکن جیسے ہی وہ عملیت پسندی کے دور میں داخل ہوتے ہیں ، بغاوت ترک کر دیتے ہیں۔لیکن اب بدلے ہوئے ماحول میں ان سے بھی کچھ کچھ خطرہ سا محسوس ہوتا ہے۔ ابھی چند دن پہلے ہی کچھ نوجوان وکلا سیشن جج صاحب کیساتھ بیٹھ کر میری طاقت ختم کرنے کے طریقے سوچ رہے تھے۔ ایک دفعہ تو میری جان ہی نکل گئی لیکن جب میں نے جج صاحب کو یہ کہہ کر ہتھیار پھینکتے ہوئے دیکھاکہ اہلکاروں کی تنخواہیں بھی بڑھا کر دیکھ لیں، انہیں جیل بھیج کر بھی دیکھ لیا لیکن سو روپے کے جادو کا کوئی ٹونہ نہیں ہو سکا، تو میری جان میں جان آئی۔ ان کی ملاقات کا اختتام میرے لئے بہت حوصلہ افزا تھا، ان سب کا اس بات پر اتفاق ہوا تھا کہ میری جڑیں بہت گہری ہیں۔
تازہ ترین