• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جمہوریت میں عوام کے حقوق کی پاسداری !ایک فریب۔پتھروں پہ پڑی مٹی جسے حقائق کی ہلکی سی بارش بہالے جائے۔
اصغر خان کیس پر مختلف زاویوں سے گفتگو جاری ہے۔ اہلِ فکرو نظر اس بنیادی سوال پر متفکر ہیں کہ ایک ایسی جمہوریت میں کیاہم اپنی زندگیوں کو بدلنے پر قادر ہو سکتے ہیں جس میں تاریخ اور تقدیر کو بنانے اور موڑنے میں پیسے کا کردار بنیادی،بہت گہرا اور ہمہ گیر ہے۔ سپریم کورٹ نے اصغر خان کیس کے تفصیلی فیصلے میں 1990ء کے انتخابات میں سابق صدر غلام اسحاق خان، جنرل مرزا اسلم بیگ اور جنرل اسد درانی کی طرف سے ایوانِ صدر میں سیاسی سیل کے قیام اور سیاسی جماعتوں اور شخصیات کو رقوم دینے کی سرگرمیوں کو غیر قانونی قرار دیا ہے تفصیلات کے مطابق اسلامی جمہوری اتحاد کے قیام اور اس کی مالی ضروریات پوری کرنے کے لئے ایک بینک سے چودہ کروڑ روپے حاصل کئے گئے تھے جس میں آدھی سے زائد رقم مختلف سیاستدانوں اور جماعتوں میں بانٹ دی گئی۔56سے زائد شخصیات ہیں جنہیں ادائیگیاں کی گئیں۔
پاکستان میں جمہوریت میں پیسے کا ناروا کردار کچھ 1990ء کے الیکشن سے مخصوص نہیں۔ یہ ہمیشہ سے ہے اور ہمیشہ رہے گا۔ الیکشن لڑوانے اور جتوانے میں قانون شکنی کہیں یا تجاوزجمہوریت میں پیسے کے علاوہ کوئی اور چیز بنیادی ستون نہیں۔ ستم در ستم یہ مسئلہ صرف پاکستان کے جمہوری نظام کے ساتھ خاص نہیں بلکہ ہر جمہوریت کا حصہ ہے۔امریکہ میں بھی بااندازِدیگر یہی ہوتا ہے۔امریکہ میں جو امیدوار صدارتی الیکشن کے لئے کھڑا ہوتا ہے اپنے الیکشن اخراجات پورے کرنے کے لئے اسے عام لوگوں سے فنڈنگ کے ذریعے ایک مخصوص رقم جمع کرنی ہوتی ہے یہ فنڈز اکٹھا کرنے کے بعد اسے حکومتی خزانے سے انتخابی مہم چلانے کے لئے پیسے دیئے جاتے ہیں۔ بھرپور انتخابی مہم چلانے کے لئے چونکہ ڈالر پانی کی طرح بہانا لازم ہے اس لئے امیدوار کو عام شہریوں کے علاوہ سرمایہ دار، ملٹی نیشنل کمپنیوں اور مالیاتی اداروں کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ سرمایہ دار کمپنیاں اس بنیاد پر امیدوار کو سرمایہ فراہم کرتی ہیں کہ کامیاب ہونے کے بعد وہ نہ صرف ان کے مفادات کاتحفظ کرے گا بلکہ ان کے حق میں قانون سازی بھی کرے گا۔ ایک عام آدمی کے مقابلے میں ان بڑی بڑی کمپنیوں اور مالیاتی اداروں کے پاس چونکہ ڈالرز کے پہاڑ ہیں وہ جسے مالی سپورٹ کریں اس کی کامیابی کے امکانات زیادہ ہوں گے مگر قانونی طور پر رکاوٹ یہ تھی کہ بڑی بڑی کمپنیاں امیدوار کوبراہِ راست رقوم مہیا نہیں کرسکتی تھیں لیکن پچھلے سال امریکی سپریم کورٹ نے یہ مشکل بھی حل کر دی اور ایک فیصلے میں قرار دیا کہ بڑی بڑی کمپنیاں انتخابی مہم کے لئے کسی بھی امیدوار کو یا اپنے پسندیدہ امیدوار کوبراہِ راست پیسہ دے سکتی ہیں۔ جواز یہ کہ جس طرح ایک فرد کو آزادی ہے اسی طرح بڑی بڑی کمپنیاں بھی یہ حق رکھتی ہیں کہ اپنے پسندیدہ امیدوار کو فنڈزدے سکیں۔ یوں امریکی جمہوریت میں پیسے کی عملداری اور اقتدار تک پہنچنے کے لئے پیسے کے کردار کو نہ صرف تسلیم کرلیا گیا ہے بلکہ اسے قانونی حیثیت بھی دے دی گئی ہے۔ پاکستان میں تاحال قانونی طور پر یہ جرم ہے۔ اصغر خان کیس کے فیصلے کے بعد ایوانِ عدل کی پیشانی پر یہ تحریر کر دیا گیا ہے لیکن عملی صورت حال یہ ہے کہ مجرم ہو بارسُوخ تو قانون کچھ نہیں۔
جمہوریت میں ایوانِ اقتدار تک رسائی پیسے کاکرشمہ ہے۔لوگوں کی،لوگوں کیلئے اور لوگوں پر مشتمل جمہوریت اگرچہ دنیا میں کبھی وجود نہیں پاسکی لیکن اب جمہوریت کا یہ تصور بھی فرسودہ ہی نہیں بلکہ متروک ہو چکا ہے۔6نومبر کے حالیہ امریکی انتخابات میں مختلف گروپوں نے ڈیموکریٹس اور ری پبلکن کو چندے میں جو رقم دی ہے وہ 36 کروڑ 16 لاکھ 38 ہزار 9سو 28 ڈالر ہے۔ پاکستانی روپے میں یہ رقم 87/ارب 29 کروڑ 20 لاکھ 5سو 34روپے بنتی ہے۔ یہ امریکہ کے مہنگے ترین الیکشن تھے۔ بعض پاکستانی اس حالیہ الیکشن کو جمہوریت کے حُسن سے تعبیر کرتے ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ تشہیری مہم اور انتخابی دوروں میں خرچ کی گئی 6/ارب ڈالر سے زیادہ کی رقم نے 32کروڑ امریکیوں کی زندگی کا فیصلہ کرنے میں بنیادی کردارادا کیا ہے۔ امریکی الیکشن میں صرف صدر اوباما اور مٹ رومنی کے نام سامنے لائے گئے حالانکہ اور بھی امیدوار تھے لیکن ان کے پاس اتنے پیسے نہیں تھے کہ انتخابی مہم چلاسکیں۔ امریکی میڈیا میں ان کا نام تک نہیں لیا گیا یہ اس حقیقت کا مظہر ہے کہ جمہوریت میں جس کے پاس پیسے ہوں گے صرف وہی انتخابات میں حصہ لینے کا حقدار ہے۔ ڈیموکریٹ ہوں یا ری پبلکن دونوں امریکہ کے مراعات یافتہ طبقوں کے مہروں سے زیادہ حقیقت نہیں رکھتے۔
مغربی جمہوریت عملی طور پر مراعات یافتہ طبقوں کی ایجنسی بن کر رہ گئی ہے جو مٹھی بھر امیروں کو بہت زیادہ امیر اور غریبوں کی غربت میں بے پناہ اضافہ کرتی چلی جا رہی ہے۔امریکہ میں جب جب کسانوں، مزدوروں اور دانشوروں نے اپنی پارٹیاں بنائیں انہیں سرمایہ دار طبقے نے پنپنے نہیں دیا۔ امریکی جمہوریت وال اسٹریٹ اور پینٹاگون کے تابع ہے۔ ایک فیصد آبادی ملک کی ننانوے فیصد دولت پر قابض ہے اور اس کے بل بوتے پر امریکہ پر حکومت کر رہی ہے۔ جب وال اسٹریٹ پر قبضہ کی تحریک نے سر اٹھایا تودھرنا دینے والوں پر ڈنڈے برسائے گئے اور آنکھوں میں پچکاریوں سے پسی ہوئی مرچیں ڈال کراندھا کر دیا گیا۔
پاکستان میں اصغر خان کیس ہو یا امریکہ کی حالیہ الیکشن مہم جمہوریت میں پیسے کا بے حد و حساب استعمال روکنا ممکن نہیں۔ پاکستان میں اسے بطورِحقیقت تسلیم نہ کرتے ہوئے جمہوریت کو اصغر خان کیس جیسی بے قاعدگیوں اور سانحوں سے بچانے کے لئے کرپٹ افراد سے پاک کرنے کی بات کی جا رہی ہے لیکن کیا ایسا ممکن ہے؟پیسے کا ناجائز استعمال اور کرپشن جمہوری نظام کا لازمی جز ہے۔ سب جانتے ہیں چند ماہ بعد ہونے والے الیکشن کے شفاف ہونے پر بھی بہت زور دیا جا رہا ہے۔کیا شفاف انتخابات کا کوئی فائدہ عوام کو ہوگا۔ جن ممالک میں شفاف الیکشن ہوتے ہیں کیا وہاں عوام کے مسائل حل ہو گئے یا ان میں اضافہ ہوا ہے۔دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں جمہوریت غریب محنت کش اور غربت کی لکیرکے نیچے غرق ہونے والے لوگوں کا ایک بنیادی مسئلہ بھی حل کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔پاکستان میں اگلے الیکشن شفاف ہوں اور ان میں کسی ایسے شخص کو ترجیح دی جائے جسے ابھی آزمایا نہیں گیا اور اصغر خان کیس جیسے علامتی مقدمے کے ذریعے جمہوری نظام کی اصلاح کی کوشش کی جائے۔
تازہ ترین