• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
,

مشکل کرداروں میں حقیقت کے رنگ بھرنے والے، عمران اشرف کی باتیں

بات چیت: عالیہ کاشف عظیمی

90کی دہائی کا ذکر ہے کہ ایک طویل دورانیے کا ڈراما’’جب محبّت نہیں ہوئی‘‘ پاکستان ٹیلی ویژن سے نشر ہوا، تو اس کے نمایاں اداکاروں میں عارفہ صدیقی اور نعمان اعجاز کے ساتھ ایک آٹھ سالہ بھولے بھالے بچّے نے بھی پہلی بار اینٹری دی۔ آج وہی بچّہ ایک معروف اداکار ہی نہیں، لکھاری بھی بن چُکا ہے۔ تاہم، اس بچّے نے باقاعدہ طور پر اپنے فنی کیریئر کا آغاز 2011ء میں ڈراما’’وفا کیسی، کہاں کا عشق‘‘ سے کیا اور مختصر عرصے ہی میں کئی ٹاپ ریٹڈ ڈراموں مثلاً تو دِل کا کیا ہوا، دِل لگی، بدگمان، کالا جادو، جھوٹ، خدا میرا بھی ہے، گلِ رعنا، شہرِ اجنبی، فالتو لڑکی، آبرو، الف، اللہ اور انسان وغیرہ میں اپنی عُمدہ اداکاری کے جوہر دکھاکر سب کے دِل جیت لیے۔ ان دنوں وہ ڈراما ’’لشکارا‘‘ اور’’دل موم کا دیا‘‘ میں جلوہ گر ہے۔ جی بالکل، ہم بات کررہے ہیں،’’شمّو ‘‘اور’’سَنی‘‘ جیسے لازوال کرداروں میں حقیقت کا رنگ بَھرنے والے، عمران اشرف کی۔ حال ہی میں اُن کا پہلا تحریر کردہ ڈراما’’تعبیر‘‘ اپنے خُوب صُورت انجام کےساتھ اختتام پزیر ہوا۔ بنیادی طورپر عمران، اسلام آباد کے رہائشی ہیں،لیکن کیرئیر کی خاطر، روشنیوں کے شہر کراچی منتقل ہوچُکے ہیں اور چند ماہ قبل ہی ابھرتی اداکارہ، کرن حسین ڈار کے ساتھ رشتۂ ازدواج میں منسلک ہوئے ہیں۔

ہم نے عمران اشرف سے’’جنگ، سنڈے میگزین‘‘ کے معروف سلسلے ’’کہی اَن کہی‘‘ کے لیے بہ طور خاص بات چیت کی، جس کی تفصیل نذرِ قارئین ہے۔

س :خاندان، جائے پیدایش، ابتدائی تعلیم و تربیت کے متعلق کچھ بتائیں؟

ج: میرا تعلق اعوان فیملی سے ہے۔ والد اشرف اعوان ایک معروف نجی بینک میں ملازمت کرتے تھے، اب ریٹائر ہوچُکے ہیں۔ اگرچہ میرے آباؤ اجداد کا تعلق سیال کوٹ سے ہے، لیکن مَیں نے 11 ستمبر 1989 میں خیبر پختون خوا کے شہر، پشاور میں آنکھ کھولی۔ تاہم، زیادہ وقت اسلام آباد میں گزرا اور اب کراچی میں رہایش پزیر ہوں۔ ابتدائی تعلیم اسلام آباد اور ماسٹرز کی ڈگری ماڈرن ایج پبلک اسکول اینڈ کالج، ایبٹ آباد سے حاصل کی۔ جہاں تک تربیت کی بات ہے، تو والدین کا بے حد شُکر گزار ہوں کہ جن کی تربیت کی بدولت زمانے کی اونچ نیچ سمجھ سکا اور معاشرے میں رہنے کے قابل ہوا۔

س:بچپن میں شرارتی تھے یا مزاج میں سنجیدگی کا عُنصر غالب تھا؟

ج: ذہن سنجیدہ، لیکن دِل ذرا شرارتی سا تھا۔

س:اہلِ خانہ پیار سے کس نام سے پکارتے ہیں؟

ج: ویسے تو عمران ہی کہہ کر بلاتے ہیں، البتہ کبھی کبھار ’’مانی‘‘بھی کہہ لیتے ہیں۔

س: فرماں بردار بیٹے ہیں یا خودسَر؟

ج:بہت ہی زیادہ فرماں بردار بیٹا ہوں۔

س: شوبز میں باقاعدہ آمد کب اور کیسے ہوئی، پہلا ڈراما کون سا تھا؟

ج: جب آٹھ برس کا تھا، تو ڈائریکٹر، دلاور ملک نے ایک طویل دورانیے کے ڈرامے’’جب محبّت نہیں ہوئی‘‘ سے بہ طور چائلڈ اسٹار متعارف کروایا، مگر باقاعدہ طور پر2011ء سے اداکاری کررہا ہوں۔ اس دوران تعلیم مکمل کی اور والد صاحب کے ساتھ کاروبار میں بھی ہاتھ بٹایا۔ پھر2011ء میں دلاور ملک نے اپنے ایک ڈرامے’’وفا کیسی، کہاں کا عشق‘‘ کے لیے آفر کی، جو بہ خوشی قبول کرلی۔ بس پھر وہ دِن ہے، اور آج کا دِن ،اداکاری کا جنون بڑھتا ہی جارہا ہے۔

س:زندگی کی پہلی کمائی ہاتھ آئی، تو کیا کیا؟

ج:پہلی کمائی کُل پانچ سو روپےتھے۔300روپے امّی کو دیئے اور باقی رقم سے دوستوں کے ساتھ دعوت اُڑائی۔ اُس زمانے میں یہ رقم بھی خاصی ’’ہینڈ سم‘‘ تصوّر کی جاتی تھی۔

س:پہلی بار کیمرے کا سامنا کیا، تو دِل کی حالت کیا تھی؟

ج:تب تو ننّھے سے دِل کو پتا ہی نہ تھا کہ کیمرا کیا ہوتا ہے، البتہ اب جب بھی کیمرے کا سامنا کرتا ہوں، تو خوف ہی آتا ہے۔

س:فیلڈ میں آنے کے بعد کن مشکلات کا سامنا کرنا پڑا؟

ج:مَیں نے زندگی میں بہت مشکلات برداشت کیں،مگر الحمدللہ، ہر مقام پر ثابت قدم رہا۔

س:فیلڈ کی وجہ سے ذاتی زندگی متاثر ہوئی؟

ج:مَیں نے کبھی اپنی ذات کے بارے میں سوچا ہی نہیں، تو مَیں نہیں سمجھتا کہ میری ذاتی زندگی متاثر ہوئی ہے۔

س:2011 سے لے کر تاحال مختلف نوعیت کے کردار ادا کیے، جیسے ’’الف اللہ اور انسان‘‘ کا شمّو، ’’لشکارا‘‘ کا سَنی، تو اپنا کون سا کردار، روپ زیادہ اچھا لگا؟

ج:’’الف اللہ اور انسان‘‘ میں ’’شمّو‘‘، ’’دِل کا کیا ہوا‘‘ میں ’’ٹیپو‘‘ اور ’’گلِ رعنا‘‘ میں ’’اشعر‘‘ کا کردار زیادہ اچھا لگا۔ تاہم، جلد ہی ناظرین مجھے ’’بھولا‘‘ نامی ایک کردار میں دیکھیں گے، جو مَیں سمجھتا ہوں کہ ان سب سےمشکل کردار ہے۔

س:آپ ’’تعبیر‘‘ ڈرامے کے رائٹر بھی ہیں، تو لکھنے لکھانے کی جانب رجحان کیسے ہوا؟

ج:مَیں نے زندگی کا بہت خوشیوں بَھرا دَور دیکھا، پھر حالات نے پلٹا کھایا، تو مشکلات بھی دیکھیں۔ تو بس، ان ہی کیفیات کے اظہار نے لکھنے لکھانے کی جانب مائل کردیا۔

س:فلموں میں کب جلوہ گر ہورہے ہیں؟

ج:شاید کبھی نہیں اور یہ بھی ممکن ہے کہ کوئی کردار اچھا لگے، تو فلم سائن بھی کرلوں۔ اس لیےقبل از وقت کچھ کہہ نہیں سکتا۔

س:اگر بھارتی فلموں کی آفر ہوئی، تو کیا ردِّ عمل ہوگا؟

ج:میرے نزدیک عزّت سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ہاں، اگر کوئی بہت اچھا کردار آفر ہوا، تو ضرور سوچا جاسکتا ہے۔

س:زندگی سے کیا سیکھا؟

ج:ابھی زندگی کا لیکچر پورا کہاں ہوا، ابھی تو سیکھ ہی رہا ہوں۔

س:جو چاہا، پالیایا کوئی خواہش آج بھی تشنہ ہے؟

ج:اللہ تعالیٰ نے مجھے میری اوقات سے بڑھ کر عطا کیا ہے اور جو خواہشات تشنہ بھی رہیں، تو بعد میں اندازہ ہوا کہ اُن کا ادھورا رہ جانا ہی میرے حق میں بہتر تھا۔

س:زندگی کا کوئی یادگار ترین لمحہ؟

ج:ہر تلخ و شیریں لمحہ یادگار ہی ہے۔

س:تنہائی پسند ہیں یا ہجوم میں گِھرے رہنا اچھا لگتا ہے؟

ج:ہجوم خُوب صُورت لوگوں کا ہو، تو کیا ہی بات ہے۔ ویسے تنہائی پسند ہوں۔

س:دِل کی تیز دھڑکن کب سُنائی دیتی ہے، آخری بار کب سُنی؟

ج: ہر وقت ہی سُنتا ہوں کہ یہی تو زندگی کا پتا دیتی ہے۔

س:موسم اور رنگ کون سا بھاتا ہے؟

ج:موسم تو سارے ہی اچھے لگتے ہیں، البتہ بہت زیادہ دھوپ میں رہنا پسند نہیں۔ویسے دِل کو سانولا رنگ بھاتا ہے۔

س:کتب/شاعری سے شغف ہے؟ کسی مصنّف یا شاعر کو پڑھنا اچھا لگتا ہے؟

ج:ادیبوں، شعراء سے کہیں زیادہ آنکھیں اور چہرے پڑھنا پسند ہیں۔

س:گھر کا کوئی ایک حصّہ، جہاں بیٹھ کر سُکون ملتا ہو؟

ج:گھر کا ہر وہ حصّہ، جہاں ماں بیٹھی ہو، میرے لیے سُکون کا مسکن بن جاتا ہے۔

س:کس بات پر غصّہ آتا ہے؟ اور ردِّعمل کیا ہوتا ہے؟

ج:جب کوئی کسی کی کم زوری کا فائدہ اُٹھانے کی کوشش کرے۔ عموماً غصّے کی کیفیت میں اتنی باتیں سُناتا ہوں کہ اگلے بندے کو شرم آجائے۔

س:زیادہ تر دِل کی سُنتے ہیں یا دماغ کی؟

ج:دِل اور دماغ میں اچھی انڈر اسٹینڈنگ ہے، تو کبھی دِل کی سُن لیتا ہوں اور کبھی دماغ کا کہا مان جاتا ہوں۔

س:خاندان میں کوئی اور بھی اس فیلڈ سے وابستہ ہے؟

ج:جی، میرے بڑے بھائی فیصل عباس گلوکار ہیں، اُن کا ایک مشہور گانا’’سیّاں‘‘ تھا، لیکن اب وہ گانا نہیں گا رہے۔

س:سُنا ہے کہ اہلِ خانہ آپ کو کھوٹا سِکّہ کہتے تھے؟

ج:جی ایسا ہی تھا۔ اصل میں، مَیں خاصا لاابالی سا تھا۔ دوستوں کے ساتھ بہت زیادہ گھومتا پھرتا تھا، تو گھر والوں نے کھوٹا سِکّہ کہنا شروع کردیا۔

س:شہرت نے مغرور کردیا یا منکسر و عاجز؟

ج:شہرت نے پہلے سے زیادہ اللہ کا شُکر گزار بنادیا ہے۔

س:اگر کبھی ٹی وی انڈسٹری سے کنارہ کشی اختیار کرنی پڑی، تو کیا کریں گے؟

ج:کوشش تو یہی ہوگی کہ ایسا نہ ہی ہو، لیکن اگر اداکاری سے ہٹ کر کچھ کرنا پڑا، تو خود پر اتنا یقین ہے کہ کچھ نہ کچھ ضرور کرلوں گا۔

س:تنقید کے کس حد تک قائل ہیں؟

ج:میرے خیال میں اگر تنقید مثبت ہو، تو صلاحیتوں میں نکھار ہی آتا ہے۔

س:کس سینئر اداکار یا اداکارہ سے متاثر ہیں؟

ج:ہر اُس اداکار اور اداکارہ سے متاثر ہوں(خواہ وہ سینئر ہو یا جونیئر)، جن سے سیکھنے کو کچھ ملے۔

س:موسیقی کس طرح کی پسند ہے،کیا کبھی خود گانے کی کوشش کی؟

ج:موڈ پر منحصر ہے۔ کبھی غزلیں، کبھی ہلکی پھلکی موسیقی اور دِل چاہے، تو رنگ رنگیلے گانے بھی سُن لیتا ہوں۔خود گانے کی کوشش نہیں کی، البتہ گنگناتا ضرور ہوں۔

س:کس اداکار یا اداکارہ کے ساتھ پرفارم کرکے بہت مزہ آیا؟

ج:ہمایوں سعید اور اقرا عزیز کے ساتھ کام کرنا اچھا لگا۔

س:موبائل فون کو زندگی سے نکال دیا جائے تو…؟

ج: زندگی بےحد پُر سُکون بھی ہوجائے گی۔

س:گھر سے نکلتے ہوئے کون سے تین چیزیں آپ کے ساتھ لازماً ہوتی ہیں؟

ج:صرف میں ہی اپنے ساتھ ہوتا ہوں کہ چیزوں کا بار اُٹھانا پسند نہیں۔

س:اگر آپ کے والٹ کی تلاشی لی جائے؟

ج: اس کے لیے تو پہلے مجھے والٹ خریدنا پڑے گا۔

س:اسپورٹس سے دِل چسپی ہے؟

ج:کبھی کرکٹ کا بہت شوقین تھا،اب وہ بھی نہیں رہا۔

س:کس بات پر دُکھی ہوجاتے ہیں؟

ج:مَیں دُکھ کی بہت قدر کرتا ہوں، اسی لیے بات بات پر دُکھی ہوجاتا ہوں۔

س:کبھی کسی سے عشق ہوا؟

ج:جی بالکل، مجھے اپنے کام سے جنون کی حد تک عشق ہے۔

س:عوامی مقامات پر پرستار گھیر لیں، تو کیا ردِّعمل ہوتا ہے؟

ج:اللہ کا شُکر ادا کرتا ہوں کہ مالک نے اتنی عزّت و شہرت سے نوازا ہے۔

س:سوشل میڈیا کا کس حد تک استعمال کرتے ہیں؟

ج:صرف اور صرف ضرورت کی حد تک۔

س:اپنی کس عادت سے خود نالاں ہیں اور کس سے گھر والے؟

ج:شُکر کہ ایسی کوئی عادت نہیں، جو پریشانی کا سبب بنے۔

س:اگر کسی شو کی میزبانی کی آفر ہوئی تو…؟

ج:اگر تو واقعی اُس شو کو میری ضرورت ہوئی، تو ضرور کروں گا، زبردستی ہرگز نہیں۔

س:کوئی ایسا واقعہ، جو حافظے میں نقش ہوگیا؟

ج:عارضی زندگی کا تو پَل پَل حافظے میں نقش ہے۔

س:فارغ اوقات کے کیا مشاغل ہیں؟

ج:سوچنا اور صرف سوچنا۔

س:اپنی شخصیت کو ایک جملے میں بیان کریں؟

ج :ایک عام سا انسان، جو خوشی میں خوش اور غم میں غم گین ہوجاتا ہے۔

س:کوئی پیغام؟

ج:اگر آپ کام یاب زندگی گزارنا چاہتے ہیں، تو اُن افراد کی عزّت کریں، جن کے پاس عزّت کروانے کی کوئی وجہ نہیں، سوائے اس کے کہ وہ بھی انسان ہیں۔

تازہ ترین
تازہ ترین