• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
گل وخار… سیمسن جاوید
بیگم کلثوم نواز ایک ایسے معاشرے سے تعلق رکھتی تھیں جہاں اپنی بیماری کا یقین دلانے کیلئے مرنا پڑتا ہے۔ ہمارا ملک ابھی تک جہالت کے ندھیروں سے باہر نہیں نکل سکا۔ مخالفت ہو یا پیار ہر چیر میں انتہا کر دیتے ہیںیہاں تک کہ ہمارے اہل دانشور ،اور اہل قلم اپنے قلم و زبان کی حرمت کا پاس نہیںرکھتے تو عام آدمی سے کیا توقعات کی جا سکتی ہیں۔ اخلاقی پس ماندگی اور جہالت کی وجہ جہاں اخلاقیات کادرس دینے والے اداروں کے علاوہ اور بہت سے عوامل ہیں وہاںاس کی بڑی ذمہ دار کسی حد تک وہ سیاسی ماحول اور لیڈر شپ بھی ہے جس کی پچھلے پانچ سال سے اقتدار کی کشمکش نے پورے معاشرے کو اپنی لپیٹ میںلے لیااور یہ معاشرہ اخلاقیات کی تمام حدوں کو پار کرگیاہے۔لوگ بیماری یا میت پر بھی سیاست کرنے سے باز نہیں آتے۔ عروج و زوال،تخت و تاج ،عزت و ذلت سب اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔زندہ رہتے ہوئے انسان کتنامغرور ہوتا ہے۔اس بات سے درکنار کہ آخراسے ایک دن اس جہانِ فانی سے کوچ کر جانا ہے۔ ہر چیز اسی دنیاء فانی میں رہ جانی ہے اور خدا تعالیٰ کے سامنے خالی ہاتھ ہی جانا ہے ۔ صرف اس کے کفن دفن کے لئے دو گززمین اورچھ گز سفید کپڑا چاہئے ہوتا ہےاوراپنے اعمال کےساتھ خدا تعالیٰ کی عدالت پیش ہوناہے۔ پھرنجانے انسان کو کس بات کا غرور ہے۔بائبل مقدس میں لکھا ہے کہ انسان کی زندگی اس گھاس کی مانند ہے جو جلد سوکھ جاتی ہے اور آگ میں ڈال دی جاتی ہے۔کون جانتا ہے کہ کل ا سکے ساتھ کیا ہوگا۔کس قدر کربناک جملہ ہے کہ بیگم کلثوم نواز ایک ایسے معاشر ے سے تعلق رکھتی تھی جہاں اپنی بیماری کا یقین دلانے کے لئے مرنا پڑتا ہے۔ پاکستان میں سیاست اور سیاست دانوںکا کوئی مستقبل نہیں لوگ چڑھتے سورج کے پجاری ہیںنواز شریف اور اْس کے خاندان پر ماضی میں بہت سی آزمائشیں آئیںاور اب بھی وہ بہت بڑ ی مشکلات اور آزمائش میںہیں ۔کہتے ہیں جب انسان پر برا وقت آتا ہے تو مشکلات اور پریشانیاں اْسے چاروں طرف سے گھیر لیتی ہیں28جولائی 2017 کو نواز شریف کو سپریم کورٹ نے نا اہل قرار ددیا جس کے نتیجے میں نواز شریف کو نہ صرف وزارت عظمیٰ سے ہاتھ دھونا پڑے بلکہ انہیں این اے 120سے ڈی سیٹ کر دیا گیا۔سپریم کورٹ نے انہیںتاحیات سیا ست اور سیاسی سرگرمیوں سے روک دیا ۔ضمنی الیکشن کا شیڈول جاری ہوا تو مسلم لیگ ن نے نواز شریف کی اہلیہ بیگم کلثوم کو انتخابی میدان میں اتارنے کا فیصلہ کیاتاکہ ایک بار پھر بیگم کلثوم مسلم لیگ ن کو اس مشکل گھڑی سے نکال سکیں جس طرح انہوں نے ماضی میںچیف آف آرمی سٹاف پرویزمشرف کے مارشل لاء کے دور میں، جب نواز شریف اور مسلم لیگ ن کے اہم ارکان کو جیل کی سلاخوں کے پیچھے دھکیل دیا گیا تھا اور کچھ رو پو ش ہو گئے تھے مارشل لاء کے سامنے یہ بہادرخاتون جمہوریت کی سلامتی اور بقا کے لئے اٹھ کھڑی ہوئیں۔ کوئی یہ سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ یہ گھریلو خاتون سٹرکوں پر بھی نکل آئے گی۔مارشل لاء کے خلاف اسلام آباد کی طرف ریلی لے جاتے ہوئے مشرف کے کارندوں نے بیگم کلثوم نوازکی کار کو کرین سے اٹھا لیا تو انہوں نے کار میں 12گھنٹے بیٹھ کر ایک مثال قائم کی ۔تحریک کے دوران بڑی حد تک پارٹی قیادت کو سنبھالا اورآمریت کو ایکسپوز کرنے میں کو ئی کسر نہ چھوڑی۔وہ انصاف کے لئے مسلسل عدالتوں کے دروازے کھٹکھٹاتی رہی ۔دباؤ اس قدر بڑھا کہ بالآخر جمہوری جدوجہدکو تبدیل کر دیا۔ بیگم کلثوم نوازعلالت کے باعث 17اگست 2017کو علاج کیلئے لندن چلی گئیں۔یوں ان کی صاحبزادی مریم نواز نے ان کی انتخابی مہم شاندار طریقے سے چلائی ۔ بیگم کلثوم انتخاب توجیت گئی مگر علیل ہو نے کی وجہ سے ممبر قومی اسمبلی کا حلف نہ اٹھا سکیں۔ ان کے گلے کے کینسر کی سرجری کامیاب بھی ہو گئی تھی مگر بعد میں دل کا دورہ پڑنے سے کینسر کلاٹ خون میں شامل ہو گیا جو ان کی موت کا سبب بن گیا۔ بیماری کے دوران میاں نواز شریف اور مریم نواز جو نیب میںمقدمات کا سامنا کر رہے تھے۔انہیں بیگم کلثوم کی عیادت کیلئے اکثر لندن جا نا پڑتا جس پرمخالفین نے بیگم کلثوم کی بیماری اور میاں نواز شریف کے بارے میں بہت من گھڑت کہانیاں بنائیں اور بیگم کلثوم نواز کی بیماری کو جھوٹ ڈرامہ اور بہانہ قرار دیا بلکہ کچھ نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ ان کی موت واقع ہو چکی ہے۔مگر نواز شریف اور مریم نواز ان کو قریب المرگ اورایسے حالات میں جب وہ بات بھی نہیں کر سکتی تھیں ،چھوڑ کروطن واپس آ گئے۔ یوں ان کا ٹیلی فونک رابطہ بھی ٹوٹ گیا ۔پھر یہ کربناک خبر سننے کو ملی کہ قدم قدم پر ساتھ دینے والی ان کی زندگی کی ساتھی انہیں ہمیشہ ہمیشہ کیلئے چھوڑ گئی ہےہمارے معاشرے کا ایک بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ ملک میں بہت ایسے لوگ ہیں جو اب بھی سوال کرتے ہیں کہ بیگم کلثوم نواز ،نواز شریف کی بیگم تھی جو تین بار خاتونِ اوّل رہ چکی تھیںاس کے سوا ان میں ایسی کیا خوبی تھی جسے اتنی اہمیت دی جا ری ہےلوگ تو حقیقت کو سمجھنے کی بجائے یہ بھی کہہ رہے ہیں کہ دونوں بیٹے اپنی ماں کے جنازے میں شریک نہیں ہوئے حالانکہ یہ کبھی نہیں سوچا کہ پاکستان میں انصاف بھی مفروضوں پر اور عوام بھی مفروضوں پر چلتے ہیں ۔اگر انصاف کی آنکھوں پر سیاہ پٹی نہ باندھی ہوتی تو بھٹو کو پھانسی نہ دی جاتی ۔اور شیر دل پرویز مشرف بھی مقدمات اور عدالتوں کا سامنا کرتے ۔وہ جانتے تھے کہ پاکستان میں ان کے ساتھ کیا ہوگا۔دنیا میں بے شمار لوگ ہیں جو ماں باپ کے مرنے پر ان کا آخری دیدار نہیں کر پاتے۔ان دونوں بیٹوں نے تو اپنی ماں کے آخری وقت میں ان کی اچھی طرح خدمت اور تیمار داری کی ہے اور لندن میں اپنی ماںکی نمازہ جنازہ میں شرکت بھی کی ہے۔ مگرتف ہے ہمارے بیمار ذہنوں کےمالک عوام پر جولاشوں پر بھی اپنی بے حس سیاست کرنا نہیں بھولتے۔
تازہ ترین