• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ملک کے نئے حکمرانوں نے اپنے پہلے تیس دنوں میں کئی دوسرے معاملات کی طرح پاک بھارت تعلقات کی بحالی کیلئے دوطرفہ بات چیت کی توقع کے حوالے سے بھی حقائق کو نظر انداز کرتے ہوئے غیر ضروری عجلت کا مظاہرہ کیا ہے۔ پاکستان کے لیے مودی سرکار کی بدترین تعصب پر مبنی پالیسیوں پر نگاہ رکھنے والے بخوبی جانتے ہیں کہ بھارتی قیادت دوطرفہ تعلقات کی بحالی اور اس کے لیے کسی بھی سطح پر مذاکرات میں کوئی حقیقی دلچسپی نہیں رکھتی۔ اس کے باوجود عمران خان کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالنے پر ان کے بھارتی ہم منصب نے مبارکباد کے رسمی مکتوب میں پاکستان کے ساتھ ’’تعمیری انگیج منٹ‘‘ کی خواہش کا اظہار کیا تو ہمارے وزیر خارجہ نے اسے بھارتی وزیر اعظم کی طرف سے دوطرفہ مذاکرات کی دعوت قراردے ڈالا لیکن بھارتی میڈیا نے فوری طور پر اس دعوے کی تردیدکرتے ہوئے واضح کیا کہ وزیر اعظم مودی نے پاکستان کو بات چیت کی کوئی دعوت نہیں دی بلکہ صرف اچھے باہمی تعلقات کی خواہش کا اظہار کیا ہے۔اس واقعے کے ٹھیک ایک ماہ بعد دو دن پہلے عالمی یوم امن کے موقع پر وزیر اعظم عمران خان نے بھارتی وزیر اعظم کو باقاعدہ خط لکھ کردونوں ملکوں کے درمیان کشمیر اور دہشت گردی سمیت تمام تنازعات پر مذاکرات کی دعوت دی جو پاکستان کی امن پسندی کا اچھا مظاہرہ تھا جبکہ بھارتی وزرات خارجہ کے ترجمان رویش کمار نے بھی صحافیوں سے گفتگو میں انکشاف کیا کہ بھارتی حکومت نے پاکستان کی اس درخواست کو قبول کرنے کا فیصلہ کیا ہے اور ماہ رواں کے آخر میں نیویارک میں اقوام متحدہ کے اجلاس میں بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کریں گی۔اس پر ایک بار پھر پاکستانی حکومت اور میڈیا نے یہ تاثر دیا کہ عمران خان کا لکھا ہوا خط رنگ لے آیا ہے اور وزیر اعظم مودی تمام دوطرفہ حل طلب معاملات پر بات چیت کیلئے تیار ہیں حالانکہ بھارتی ترجمان نے اپنی گفتگو میں کھلے لفظوں میں کہہ دیا تھا کہ’’ یہ صرف ایک ملاقات ہے مذاکرات نہیں ، یہ پاکستان کے حوالے سے بھارتی پالیسی میں تبدیلی کا اشارہ نہیں اور نہ ہی اس کا مقصد مذاکرات کی بحالی ہے’’ نریش کمار کی اس وضاحت کے باوجود پاکستان کے حکومتی حلقوں اور ذرائع ابلاغ میں مذاکرات کے حوالے سے خوش امیدی کا اظہار ہوتا رہا تاہم بھارتی حکومت نے وزرائے خارجہ کی رسمی ملاقات کے اس پروگرام کو بھی ایک دن بعد کوئی معقول وجہ بتائے بغیر منسوخ کرنے کا اعلان کردیا۔پاکستانی وزیر خارجہ نے اس پر سخت مایوسی کا اظہار کیا اور اس فیصلے کا سبب بھارتی حکومت کو درپیش اندرونی دباؤ کو قرار دیا۔ تاہم شاہ محمود قریشی کو اس مایوسی کا سامنا فی الحقیقت بھارتی حکمرانوں کی مستقل سوچ اور پالیسیوں کو نظر انداز کرنے کی وجہ سے کرنا پڑا ہے۔اس صورت حال پر سابق وزیر خارجہ اور مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما خواجہ محمد آصف کا یہ تبصرہ بہت لائق توجہ ہے کہ’’ بھارت سے ایک دم امیدیں وابستہ کرلینا جلد بازی ہے، اتنی لچک کے باوجود اگر بھارت کا یہ رویہ ہے تو قومی وقار پر کوئی سمجھوتا نہیں ہونا چاہیے، بھارت سے تعلقات میں محتاط رہنا ہوگا‘‘۔ انہوں نے بالکل درست طور پرموجودہ حکمرانوں کو عاجلانہ طرز عمل سے گریز کا مشورہ بھی دیا کیونکہ تیس دنوں میں بار بار ایسا ہوچکا ہے کہ دعوے کچھ کیے جاتے ہیں اور ہوتا اس کے برعکس ہے۔موجودہ حکومت کو یہ حقیقت بھی ملحوظ رکھنی چاہئے کہ بھارت میں چند ماہ بعد عام انتخابات ہونے والے ہیں اور نریندر مودی نے اپنا پورا ووٹ بینک پاکستان سے نفرت کی بنیاد پر استوار کیا ہے۔ لہٰذا بھارتی حکومت سے فوری طور پر بات چیت کیلئے آمادہ ہوجانے کی توقع رکھنا درست نہیں۔ تاہم عین ممکن ہے کہ انتخابات کے بعد بننے والی بھارتی حکومت خواہ وہ جنتا پارٹی ہی کی ہو، بامقصد مذاکرات کیلئے تیار ہوجائے کیونکہ خود بھارت میں بھی اس بارے میں توانا آوازیں اٹھ رہی ہیں کہ کشمیر سمیت تمام پاک بھارت تنازعات بات چیت سے طے کیے جانے چاہئیں لیکن فی الوقت بھارت سے مذاکرات کی میز پر آنے کی توقع رکھنا خوش فہمی کے مترداف ہوگا جس سے گریز ہی دانشمندی کا تقاضا ہے۔

تازہ ترین