• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اپنے پہلے ضمنی بجٹ میں فنانس منسٹر اسد عمر نے پی ایم ایل (ن) کی حکومت کے آخری بجٹ میں اٹھائے گئے کچھ ترقی پسندانہ اقدامات، جو ایک غیر معمولی پیش رفت تھی، کو واپس موڑ دیا ہے ۔ گزشتہ حکومت کی نان فائلرز پر نئی کاریں اور جائیداد خریدنے پر لگائی گئی پابندی اٹھالی گئی ہے۔مروجہ طریقوں سے مالی اور مالیاتی استحکام دکھاوا عطیات فراہم کرنے والے ممالک یا کثیر ملکی اداروں، بشمول آئی ایم ایف، کی طے کردہ اہلیت پر پورا اترنے کی کوشش ہے ۔

بیرونی امداد پر انحصار کرنے والی معیشت کی نمایاں علامت مالی اور مالیاتی خسارہ ہوتا ہے۔ یہ معیشت منافع خور اشرافیہ اوردوسروں کے وسائل پر پلنے والے دھڑوں یا ایک کلائنٹ ریاست کے ہر آن بڑھتے ہوئے مطالبات کے جال سے کبھی نہیں نکل سکتی ۔ جیسا کہ ہمیشہ ہوتا چلا آیا ہے، پبلک سیکٹر ڈولپمنٹ پروگرام (PSDP) میں305 بلین روپے کی کٹوتی کی گئی ، لیکن وزارتوں اور ڈویژنز پر اٹھنے والے بھاری اخراجات کی طرف میلی آنکھ سے بھی نہیں دیکھا گیا ، حالانکہ اٹھارویں ترمیم کے بعدان کی اہمیت ختم ہوگئی تھی ۔ پہلے سے ہی ٹیکس کے بوجھ تلے دبے عوام پر مزید 183بلین روپے کے ٹیکسز کا بوجھ ڈال دیا گیا ہے ۔ گیس اور پیٹرولیم کے نرخوں میں اضافے سے صارفین پر 375 بلین روپے کا بوجھ اس کے علاوہ ہے ۔ ان مالیاتی تبدیلیوں کامجموعی حجم 814 بلین روپے ، یا جی ڈی پی کا 2.1 فیصد ہے ۔ فنانس منسٹر کو توقع ہے کہ وہ ان اقدامات سے مالیاتی خسارے کوجی ڈی پی کے 6.6 فیصد سے کم کرکے 5.1 فیصد تک لے آئیں گے ۔ وزیر ِموصوف کے نظر ثانی شدہ اندازے کے مطابق یہ خسارہ جی ڈی پی کا 7.2 فیصد ہے ۔

یہ اقدامات مہنگائی میں 8 سے 10 فیصد اضافے ، اور معاشی شرح ِنمو میں جی ڈی پی کے کم از کم ایک فیصد کمی کا موجب بن سکتے ہیں۔ چنانچہ شرح نمو جی ڈی پی کے 5.8 فیصد سے کم ہوکر 5 فیصد ، یا اس سے بھی کم ہوسکتی ہے ۔ اس کی وجہ سے بے روزگاری میں بہت زیادہ اضافہ ہوجائے گا۔موجودہ اخراجات اور پر تعیش اصراف میں کمی ، برآمدات کے معیار اور حجم میں اضافے اور ٹیکس نیٹ کو وسیع کیے بغیر تجارتی اور کرنٹ اکائونٹ خسارے کی بلند سطح برقرار رہے گی ۔ آئی ایم ایف کے دوپروگرامز کے باوجود پی پی پی اور پی ایم ایل (ن) کی حکومتیں مالیاتی خسارہ کم کرنے میں ناکام رہیں۔ یہ2013 ء میں 6.6فیصد تھا، اورپھر اس میں 1.86فیصد دیگر اضافے ہوئے اور یہ جی ڈی پی کا 8.2 فیصد ہوگیا۔

تجارتی خسارہ2017-18ء میں 32.5 بلین ڈالر سے بڑھ کر 37.6 بلین ڈالر ہوگیا، حالانکہ امپورٹ لائنز میں سات سو کی کمی لائی گئی۔ دراصل تجارتی ڈھانچے میں لائی جانے والی معمولی تبدیلیاں اتنے بھاری بھرکم کرنٹ اکائونٹ خسارے کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔ گزشتہ سال یہ خسارہ اپنی انتہائی بلند سطح پر18 بلین ڈالر تھا، جو کہ جی ڈی پی کا 5.7 فیصد ہے ۔ چنانچہ کسی انقلابی اقدامات کی غیر موجودگی میں قرضے کا حجم مسلسل بڑھتا جائے گا۔ 2013 ء میں 60 بلین ڈالر قرضہ 2018 ء میں بڑھ کر 95 بلین ڈالر ہوچکا ہے ۔ یہ حقائق عمران خان کی حکومت کے لیے فکر انگیز ہونے چاہئے تھے کہ بنیادی اورمربوط تبدیلیاں لائے بغیر پاکستان مالیاتی خسارے اور قرضے کے دہرے جال سے نہیں نکل سکتا۔

ضمنی بجٹ میں فنانس منسٹر اسد عمر نے جس طرزعمل کا مظاہرہ کیا ہے ، اس کا تسلسل مزید مالیاتی خسارے اور قرضہ جات کے بھاری بوجھ کا باعث بنے گا۔ ضمنی بجٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ چین، سعودی عرب اور دیگر ذرائع کے تعاون سے خالی خزانہ بھرنے کے علاوہ مسٹر عمرغالباً آئی ایم ایف سے ایک اور بیل آئوٹ پیکیج حاصل کرنے کی کوشش میں ہیں۔وزیر ِاعظم نے سعودی عرب کا دورہ کیا، آرمی چیف جنرل باجوہ نے چین کا دورہ کرتے ہوئے سی پیک کے تسلسل کا یقین دلایا، اور سیکرٹری آف اسٹیٹ پومپیو سے اُن کے دورے کے دوران یقین دہانی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی کہ امریکہ آئی ایم ایف کے پیکیج میں رکاوٹ نہیں بنے گا، نیول چیف نے امریکہ کا دورہ کرتے ہوئے بحری استحکام میں شراکت دار رہنے کے عزم کا اظہار کیا۔ اس تمام ہلچل کی روح رواں کلائنٹ اور سرپرست کے پریشان کن تعلقات میں بہتری لانے کی خواہش ہے۔ تاہم ان کاوشوں کے نتائج بھی عمران خان کی پیش روحکومتوں کی کوششوں سے مختلف نہیں ہوں گے کیونکہ یہ بھی مالی استحکام لانے کے اسی نمونے پر عمل کررہی ہے جو ہمارے ہاں جانا پہچانا ہے ۔ حتیٰ کہ گزشتہ برسوں کے دوران دکھائی دینے والی جی ڈی پی کی شرح نمو بھی کم ہوتی جائے گی۔ اس کی وجہ معیشت کو دستاویزی حدود میں لانے کا مطالبہ ہوگا۔

بے حد تشہیر کردہ کفایت شعاری کے اقدامات اورکچھ کٹوتیاں(جن سے صرف تین بلین روپوں کی بچت ہوئی ہے) بجٹ کے بھاری بھرکم خسارے کے مقابلے میں مونگ پھلی کی حیثیت بھی نہیں رکھتے۔ لوٹی ہوئی دولت واپس لانے کی الف لیلہ ، اور اس کی بنیاد پر تراشے جانے والے امیدوں کے شیش محل زمیں بوس ہونے میں دیر نہیں لگے گی۔ اسی طرح دوسابق حکومتوں سے تعلق رکھنے والے رہنمائوں، خاص طور پر نواز شریف، اور دیگر افسران کے محدود احتساب سے مبینہ طور پر سمندرپار چھپائی گئی دولت کے انبار پاکستان منتقل نہیں ہونے جارہے۔اور ہمارے ہاں اس دولت کا حجم چار بھاشا ڈیمز کے تعمیری اخراجات کے مساوی بتایا جارہا ہے ۔

ایک مرتبہ پھر ہمیں ایک بڑے ڈیم کی تعمیر سوجھ گئی ہے ۔ اس کے لیے ہمارے پاس وسائل نہیں ہیں۔ چنانچہ عوام سے عطیات کی اپیل کرتے ہوئے اُنہیں سمجھایا جارہا ہے کہ اس سے ماحولیاتی تبدیلیاں اور پانی کی کمی جیسے مسائل حل ہوجائیں گے ۔ عوام کو اس سے پیدا ہونے والے مسائل، جیسا کہ مقامی آبادی کی نقل مکانی اور تعمیر کے ماحولیاتی اثرات سے بے خبر رکھا جارہا ہے ۔ یہ بات بھی کرنے کی اجازت نہیں ہے کہ ہمارے سسٹم میں پانی پہلے ہی بہت کم ہے۔ اگر محض سرکاری افسران اپنی تنخواہیں اور مراعات عطیہ کردیں تو ان سے ایک چھوڑ کر دو ڈیم بن جاتے ۔غریب عوام زحمت سے بچ جاتے اور غیر ملکی قرضہ بھی نہ لینا پڑتا۔

سوچ سمجھ رکھنے والے سماجی اور لبرل دانش مند طبقے کے ’’حکومت کی تبدیلی ‘‘ پر شکوک و شبہات کے باوجود غربت ، ناخواندگی، غذائی قلت، بیماریوں، پینے کے صاف پانی، گھر اور جنگلات کی کمی دور کرنے اور نظر انداز کردہ عوام اور علاقوں کو اوپر اٹھانے کے حوالے سے عمران خان کی نعرہ بازی معقول دکھائی دیتی ہے ۔ تاہم ضمنی بجٹ کی تقریر میں فنانس منسٹر نے اس ضمن میں ایک جملہ تک نہیں کہا۔ نہ ہی قائم کی گئی ایک درجن سے زائد’’ ٹاسک فورسز‘‘ ، جو روایتی افسران پر مشتمل ہیں، کی طرف سے ان امور کی طرف پیش قدمی کا کوئی اشارہ ملتا ہے ۔ کسی تبدیلی کے مسیحا کی آمد کا غلغلہ ماند پڑ چکا ہے۔ پاکستان تحریک ِا نصاف گزشتہ دو عشروںسے جس ’’شیطانی اشرافیہ ‘‘ کے خلاف کھڑی تھی، آج اُسی کا ایک معقول حصہ اس کی وفاقی اور صوبائی کابینہ میں شامل ہے۔

پوچھا جانے والااصل سوال احمقانہ معیشت یا اس کے مسائل کے حل کے بارے میں نہیں، خاص طور پر وہ حل جو نیولبرل معیشت سے استفادہ کرنے اور اسے متحرک رکھنے والے عناصر پیش کرتے ہیں اور جو موجودہ وزیر ِاعظم مسلسل مسترد کرتے چلے آئے ہیں۔کسی قسم کی اصلاحات لانے سے پہلے سیاسی معیشت پر اٹھنے والے سوالات کا جواب ضروری ہے ۔ان سوالات کا تعلق موجودہ حکومت کے اُسی پرانے اور گلے سڑے نظام کو تقویت دینے سے ہے۔سول ملٹری اختیارات کے ڈھانچے کی نوعیت اور مشکوک انتخابی عمل کو دیکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ کسی بہت بڑی سماجی تبدیلی کی توقع خام خیالی ہے ۔ ہاں عوام کو تبدیلی کے واہمے کا شکار رکھنے کے لیے کچھ علامتی اور سطحی اقدامات اٹھائے جاتے رہیں گے۔ چنانچہ یہ سوالات اپنی جگہ پر موجود ہیں۔

سول ملٹری اختیارات کے موجودہ پیمانے کی جانچ اس سے ہوگی کہ ٹیکس کس پر لگایا ، اور کس پر خرچ کیا جاتا ہے ۔ اگرگزشتہ دوحکومتوں کا جائزہ لیا جائے نئے فنانس منسٹر کی بیلنس شیٹ اُن سے ذرہ برابر مختلف دکھائی نہیں دیتی۔ ایک پسماندہ معیشت ، جسے کسی نہ کسی سرپرست کا تعاون درکار ہوتا ہے ، اگر اپنے وسائل سے بڑھ کر زندگی گزارنے کی کوشش کرے تو اسے قرض کے جال میں ہی جینا ہوگا۔ جب تک موجودہ نوآبادیاتی دور کی یہ زنجیریں توڑ نہیں دی جاتیں، عوام کی جان مصائب سے نہیں چھوٹے گی، چاہے وہ تین گنا زیادہ محنت کیوں نہ کرلیں۔ ان پیران ِ تسمہ پاسے رہائی ضروری ہے ۔ غریبوں کے لیے حکومت قائم کیے بغیر پاکستان میں امیر اور غریب کے درمیان خلیج وسیع ہوتی رہے گی۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین