• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پنجاب کے وزیر جنگلات سردار محمد سبطین خان نے اعلان کیا ہے کہ وہ 1927 ء کے فارسٹ ایکٹ کی اُس شق پر عملدرآمد شروع کروانے لگے ہیں جس کے تحت کسی بھی فارسٹ پلانٹیشن ( جنگل ) سے پانچ میل کے فاصلے تک لکڑی کی خرید و فروخت کے مراکز اور آرا مشینیں قائم نہیں کی جا سکیں گی ۔انہوں نےپنجاب کو جنگلات کے حوالے سے باقی تین صوبوں سے پیچھے تسلیم کرتے ہوئے شجرکاری کے فروغ کا اعلان بھی کیا۔ بے شک یہ اچھی باتیں ہیں ۔ مگر پاکستان تحریک انصاف تو احتساب کے سلوگن پر بر سرِ اقتدار آئی ہے۔ وزیرجنگلات کا سب سے پہلا کام یہ ہونا چاہئے تھا وہ ہزاروں بلکہ لاکھوں ایکٹر پر پھیلے پنجاب کے جنگلات کی تباہی کے ذمہ داروں پر احتساب کاکوڑا برسانے کا اعلان کرتے۔ موجودہ وزیر جنگلات کے اپنے گھر سے 20 کلومیٹر کے فاصلے پر کندیاں پلانٹیشن اور ہرنولی پلانٹیشن کے نام سے ایک ہرابھرا ور سرسبز و شاداب جنگل ہوا کرتا تھا۔ بیس ہزارایکڑ سے زائد رقبہ پر محیط ان جنگلات کو سبطین خان نے گُم ہوتے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے اور وہ گزشتہ تین سالوں سے اپنے چیئر مین اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان کی وہ تقریریں اور پریس کانفرنسیں بھی سُنتے چلے آئے ہیں جن میں وہ انتہائی دُکھ اور افسوس کے ساتھ کندیاں کے جنگلات کی تباہی و بربادی کا ذکر کرتے ہیں۔ میرا یہ گُمان زیادہ غلط بھی نہیں ہے کہ موجودہ وزیر جنگلات پنجاب کے اس دوسرے بڑے جنگل کی تباہی کے عناصر سے واقف ہیں۔ فطرت کے حُسن ان بڑے درختوں کی لوٹ کی اس خوفناک کہانی کے کردار کب بے نقاب ہوں گے ؟ اس سوال کا جواب اس سے بہتر کوئی نہیں ہے کہ ۔۔ ’’ اب نہیں تو کب ‘‘۔

وزیر اعظم عمران خان کو شجرکاری کی اہمیت کا ادراک جنون کی حد تک ہے لیکن ایک ماہ کا عرصہ گزرنے کے باوجود پنجاب کی بڑی پلانٹیشنوں کی تباہی کے ذمہ دار عناصر کے خلاف کارروائی کا آغاز نہیں ہوسکا ۔ جزا و سزا کا عمل انتہائی ضروری ہے۔ پنجاب بھر میں جنگلات کی تباہی کی داستان کا مطالعہ بتاتا ہے کہ یہاں پر پرانے جنگلات کی بے دریغ کٹائی کے ساتھ ساتھ ایک بڑا ظُلم یہ ہوا ہے کہ نئے درخت نہیں لگائے گئے ۔ اس حوالے سے موجودہ وزیر جنگلات ماضی میں کم فنڈز کی فراہمی کا جو ذکر کرتے ہیں اُس سے اختلاف نہ بھی کیا جائے تو یہ سوال اپنی جگہ پر ہے کہ درجنوں ترقیاتی اسکیموں اور غیر ترقیاتی مد میں فراہم کئے جانے والے فنڈز ماضی میں پانچ سے چھ حصوں میں تقسیم ہو کر افسران کی مالی حالت کو مستحکم سے مستحکم کرنے کا سبب بنتے رہے۔ معلوم ہوا کہ صوبے کے تقریباً ہر بڑے جنگل میں ایک ایک کمپارٹمنٹ کئی کئی مرتبہ لگایا گیا مگر وہاں فصل موجود نہیں ہے۔ سبطین خان جس سیٹلائٹ سسٹم کو متعارف کروانے کی بات کر رہے ہیں وہ انہیں دی جانے والی ایک تازہ بریفنگ کا حصہ ہےتاہم وہ سیٹلائٹ امیج سسٹم سے اس بات کا سُراغ لگانے کی کوشش بھی کریں تو چور بے نقاب ہو سکتے ہیں کہ کونسے جنگلات کس سال تباہی و بربادی کی داستان بنے۔

محکمہ جنگلات کی مختلف آڈٹ رپورٹیں گزشتہ کئی ہفتے سے میرے زیر مطالعہ ہیں۔ ان رپورٹوں کی سطر سطر کرپشن اور بدعنوانی کی پوری پوری کہانیاں اپنے اندر سموئے ہوئے ہیں۔ درختوں کے ساتھ ساتھ محکمہ کے زیرانتظام مختلف نیشنل پارکس میں موجود جانور بھی محکمہ کے افسران کی ’’ دست بُرد ‘‘ اور چیرہ دستیو ں سے محفوظ نہیں رہ سکے۔ کئی سال پہلے بہاولپور فارسٹ ڈویژن میں قائم لال سوہانرا نیشنل پار ک ( Lal Sohanra National Park ) میں چنکارہ ہرن کی تعداد میں غیر معمولی کمی کا اسکینڈل سامنے آیا تھا۔ ان اطلاعات کے بعد کہ یہ قیمتی ہرن محکمہ کے افسران نے تحائف میں بانٹ دیئے، خوردبرد کر لئے یا فروخت کر دیئے ان تمام معاملات کی چھان بین کرنے کے لئے لیاقت علی خان سُلہری کے نام کے ایک افسر سے انکوائری کروائی گئی تھی مگر سُننے میں آیا ہے کہ وہ آفیسر ریٹائرڈ ہو گئے ہیں مگر ان کی انکوائری نہ سامنے آئی اور نہ کوئی کارروائی ہوئی ۔ افسران کو بچانے کے لئے اس محکمے میں پورا ایک نیٹ ورک ہے جو مبینہ طور پر صوبائی دارالحکومت میں قائم اس محکمہ کے مرکزی آفس سے معاملات کو کنٹرول کرتا ہے۔ لال سوہانرا نیشنل پارک میں موجود کالے ، چنکارہ اور ہُڑیال نسل کے ہرنوں کا جائزہ لیا جائے تو دلچسپ صورتحال یوں سامنے آتی ہے کہ ان کی تعداد میں ہرسال کمی واقع ہو رہی ہے جبکہ ان کی خوراک کے نام پر نکلوائی جانے والی رقوم بڑھتی چلی جا رہی ہیں۔ مزے کی بات یہ ہے اس پارک میں ان پالتو جانوروں کی افزائشِ نسل کا کوئی ریکارڈ نہیں ۔ ان کی آبادی کو جس طرح سے کنٹرول کیا گیاہے اُس طرح تو عوامی جمہوریہ چین نے بھی کبھی اپنے ہاں کوئی پالیسی نہیں بنائی ہوگی۔

2015-16 میں اس پارک میں پالتو جانوروں کی تعداد 403 تھی جن کی خوراک کے لئے 29777فی جانور سالانہ کے حساب سے ایک کروڑ بیس لاکھ روپئے خرچ کئے گئے ۔ 2016-17 کے دوران اس تعداد میں کمی ہوئی اور 267جانوروں پر 48696کے حساب سے ایک کروڑ تیس لاکھ روپے خرچ ہوئے جبکہ2017-18 میں دسمبر 2017 ء تک کے چھ ماہ 323جانوروں پر 11030روپے فی جانور کے حساب سے پینتیس لاکھ باسٹھ ہزار پانچ صد پچاسی روپے کے فنڈز چارج کئے گئے ۔

محکمہ کی تباہی وبربادی میں بنیادی اور کلیدی کردار افسران کی تعیناتی کے معاملات کا بھی ہے اس محکمے میں کافی عرصہ ڈپارٹمنٹل پروموشن کمیٹی کا اجلاس نہیں بُلایا گیا۔ مختلف فارسٹ ڈویژنوں، فارسٹ سرکلز اور فارسٹ زونز میں جونیئر افسران کو تعینات کئے جانے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ او پی ایس ( on own pay Scale ) پر افسران کی تعیناتی عدالت کے واضح اور دوٹوک احکامات کی خلاف ورزی ہے۔ توہین عدالت کی حدود کو چھونے والی ان تعیناتیوں کے لئے محکمہ میں باقاعدہ بولی لگتی رہی ہے اور سابقہ دور میں ڈویژنل، سرکل، اور زونز میں تعیناتیاں زیادہ بولی ’’لگانے والوں ‘‘ کا مقدر بنی رہیں۔ اُس کے بعد اپنی سیٹوں کو قبضے میں رکھنے کے لئے O.P.S پر تعینات افسران ماہانہ خدمت بھی بجا لاتے رہے ہیں ۔

نئی حکومت کے قائم ہوتے ہی دوسرے محکموں کی طرح پنجاب کے محکمہ جنگلات نے انگڑائی لی تھی ۔ مگر اب رفتہ رفتہ افسران اور اہلکاروں کو یقین ہو چلا ہے کہ ناتجربہ کار حکمرانوں کو شجر کاری اور گرین پنجاب اسکیم میں اُلجھا کر ماضی کی کہانیوں پر مٹی ڈال دی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ پنجاب عثمان بزدار نئے ہو سکتے ہیں لیکن انہوں نے وزیراعظم عمران خان کی ہدایت پر جنگلات، تحفظِ جنگلی حیات اور ماہی پروری کی وزارت کا قلمدان جس کے سپُرد کیا ہے ہم اس وضع دار انسان کو سردار محمد سبطین خان کے نام سے جانتے ہیں موجودہ پنجاب اسمبلی میں وہ گنے چُنے سینئر ارکان میں شامل ہیں۔ دیکھا جائے تو وہ اپنے چیئرمین کا انتخاب ہیں۔ عمران خان کے ہرے پنجاب کے خواب کو تعبیر سے ہمکنار کرنے کی ذمہ داری انہی پر عائد ہوتی ہے۔ اور اس خواب کو اُس وقت تک حقیقی تعبیر سے روشناس نہیں کروایا جا سکتا جب تک محکمہ جنگلات میں احتسابی عمل کو شروع کرکے اُسے منطقی انجام تک نہ پہنچایا جائے۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین