• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

وزیراعظم عمران خان نے اگلے روز اسلام آباد میں سینئر افسروں کے اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ اُن کے تبدیلی کے ایجنڈے پر عمل درآمد کیلئے بیورو کریسی کا کردار بنیادی اور اہم ہے۔ وزیراعظم نے سول بیورو کریٹس سے یہ بھی درخواست کی کہ وہ دو سال تک مشکلات میں اُن کا ساتھ دیں۔ دو سال کے بعد معاشی صورت حال بہتر ہوجائیگی اور اُنہیں تنخواہوں کا مناسب پیکیج دینے کے حالات پیدا ہوجائینگے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پاکستان تحریک انصاف کی طرف سے سول سروس ریفارمز اور ملک کے معاشی حالات بہتر ہونے تک سویلین حکومت اور سول بیورو کریسی کے مابین بہتر تعلقات کیسے ممکن ہیں، جو سابقہ حکومتوں کے ادوار سے قدرے مختلف ہوں۔

اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا کہ کسی بھی ملک میں اچھی حکمرانی (گڈ گورننس) کیلئے سول بیورو کریسی ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے ۔ وزیراعظم عمران خان نے بھی سول سروس ریفارمز کیلئے ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں ایک ٹاسک فورس تشکیل دے دی ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے سویلین حکومتوں اور سول بیورو کریسی کے تعلقات کار مثالی نہیں رہے ہیں۔ اگر پاکستان کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو اس صورت حال کی ذمہ داری کسی ایک فریق پر نہیں ڈالی جاسکتی۔ دونوں کے تعلقات کار میں توازن قیام پاکستان کے فوراَ بعد ہی بگڑ گیا تھا، جب سیاسی قوتوں کو ختم یا کمزور کرنے کی پالیسی پر ملک کی نئی اسٹیبلشمنٹ گامزن ہوئی اور پیدا ہونے والے خلا کو ’’نوکر شاہی‘‘ نے پُر کیا۔ نوکر شاہی بعدازاں ملک کی حقیقی ہیئت مقتدرہ بن گئی۔ جس نے سیاست دانوں کا احتساب کیا اور سیاست کو پنپنے نہیں دیا۔ وقت کے ساتھ ساتھ ملٹری بیورو کریسی نے سول بیورو کریسی کی جگہ لینا شروع کی۔ اس طرح سیاست دان اور نوکر شاہی ایک دوسرے کے حریف بن گئے۔ یہ کسی بھی ملک کیلئے اچھی بات تصور نہیں کی جاتی۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں نوکر شاہی کی طاقت کم کرنے کیلئے سیاسی اقدامات ہوئے۔ سول بیورو کریسی میں بھرتیوں اور تقرریوں کیلئے میرٹ کی بجائے وفاداری کو معیار بنا گیا۔ اُس کے بعد آمرانہ اور سویلین دونوں حکومتوں نے اسی معیار کو برقرار رکھا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سول بیورو کریسی میں وہ معیار نہیں رہا، جو انڈین سول سروس (آئی سی ایس) اور کچھ عرصے تک پاکستان سول سروس (پی سی ایس) افسروں کا تھا۔ ملک کے سیاسی حالات کی وجہ سے بہت بگاڑ پیدا ہوچکا ہے۔ ان حالات میں وزیراعظم عمران خان کو تبدیلی کا اپنا ایجنڈا مکمل کرنا ہے۔شاید ان حالات کے پیش نظر وزیراعظم عمران خان نے بیورو کریسی کے ساتھ اپنی حکومت کے بہتر تعلقات کار کے حوالے سے اپنا ’’وژن‘‘ دیا ہے۔ وزیراعظم نے یقین دہانی کرائی ہے کہ قومی احتساب بیورو (نیب) کی طرف سے سرکاری ملازمین کو ہراساں نہیں کیا جائے گا۔ سول بیورو کریسی کے معاملات میں سیاسی مداخلت نہیں کی جائے گی اور تقرری کی مقررہ مدت کیلئے تحفظ فراہم کیا جائے گا۔ یعنی مقررہ مدت سے پہلے بلاوجہ تبادلہ نہیں کیا جائے گا۔ وزیراعظم نے اس امر کو بھی تسلیم کیا کہ سول سرونٹس کی تنخواہیں اور مراعات کم ہیں۔ معاشی حالات بہتر ہونے پر تنخواہوں اور مراعات میں اضافہ کیا جائے گا۔

اس کا مطلب یہ ہے کہ سویلین حکومت اور سول بیورو کریسی کے مابین تعلقات کار کو بہتر بنانے کیلئے وزیراعظم عمران خان کے وژن کے مطابق فی الحال جو کچھ کرنا ہے، وہ حکومت کو ہی کرنا ہے یعنی نیب کی طرف سے ہراساں کیے جانے، سیاسی مداخلت اور بلاوجہ تبادلوں سے تحفظ دینا ہے۔ سول بیورو کریسی اب وہ نوکر شاہی نہیں رہی، جو قیام پاکستان کے پہلے تین عشروں میں تھی اور سیاسی حکومتیں بھی پہلے کی طرح کمزور نہیں رہی ہیں۔ اب بہتر تعلقات کار کے امکانات پہلے سے زیادہ ہیں۔ پنجاب میں ایس ایس پی پاک پتن رضوان گوندل کے ساتھ خاور مانیکا کیس میں جو کچھ ہوا یا ڈپٹی کمشنرز راجن پور اور چکوال کو جس طرح شوکاز نوٹس جاری کیے گئے، اس سے بیورو کریسی اور حکومت کے مابین اعتماد کا رشتہ اُستوار ہونے میں مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ اس طرح کے معاملات سے بہتر طور پر نمٹا جاسکتا ہے۔

سابق بیورو کریٹ تسنیم نورانی کا اس حوالے سے ایک مضمون نظر سے گزرا۔ اُنہوں نے بھی تجویز دی ہے کہ نیب کے ساتھ ساتھ سول سرونٹس کو میڈیا سے بھی تحفظ فراہم کیا جائے۔ میڈیا میں بیورو کریٹس کے حوالے سے جو خبریں نشر یا شائع کی جاتی ہیں۔ اُن میں بیورو کریٹس کو اپنے دفاع کا موقع نہیں دیا جاتا اور نہ ہی وہ سیاست دانوں کی طرح بیانات یا ٹاک شوز میں اپنا موقف بیان کرسکتے ہیں۔ بعدازاں وہ خبر بے شک غلط ثابت ہوجائے لیکن بیورو کریٹس کی ساکھ شہرت کو پہنچنے والے نقصانات کا ازالہ نہیں ہوسکتا۔ نورانی صاحب نے یہ بھی تجویز دی ہے کہ سول سروس ریفارمز پر وقت ضائع کرنے کی بجائے بیورو کریسی میں موجود خامیوں کو دور کیا جائے کیونکہ پہلے بھی سول سروس ریفارمز کیلئے 25کمیشن، کمیٹیاں اور ٹاسک فورسز تشکیل دی گئی ہیں۔ تسنیم نورانی کی یہ تجاویز صائب ہیں۔ میرے خیال میں ان کے علاوہ مزید کچھ معاملات پر توجہ دینا بھی ضروری ہے۔ صرف نیب ہی نہیں بلکہ احتساب اور انسداد بدعنوانی (اینٹی کرپشن) کے اداروں کے بے پناہ اختیارات اور نامعلوم درخواستوں پر افسروں اور ملازمین کو ہراساں کرنے کے قانونی جواز پر نظرثانی اور نئی قانون سازی کرنا ہوگی۔ آڈیٹر جنرل کے ادارے میں معاملات کو بہتر بنانے کی ضرورت ہے۔ مذکورہ بالا اداروں کی وجہ سے بدعنوانی کا ایک نیا سسٹم بن گیا ہے اور یہ سسٹم کرپشن کا تحفظ بھی کرتا ہے۔ سول سروس میں بھرتیوں کیلئے میرٹ کو یقینی بنانا ہوگا۔ وفاقی اور صوبائی پبلک سروس کمیشنز اور ایکروٹمنٹ کمیٹیز میں پیدا ہونے والی خرابیوں کو فوری طور پر دور کرنا ہوگا۔ سب سے اہم بات یہ ہے کہ سویلین حکمرانوں خصوصاً وزرا، مشیروں معاونین خصوصی اور حکمران سیاسی جماعت کے عہدیداروں کو چاہئے کہ وہ افسروں کو ’’وفادار اور فرنٹ مین‘‘ نہ بنائیں بلکہ ان کی اہلیت کی بنیاد پر ان سے کام لیں۔ سیاسی حکمران اگر خود کرپشن سے اجتناب کریں گے تو بیورو کریسی کیلئے کرپشن کرنا آسان نہیں ہوگا۔ بیورو کریسی کے احتساب کیلئے پبلک اکائونٹس کمیٹیوں اور اسٹینڈنگ کمیٹیوں کو زیادہ فعال اور مضبوط بنانا ہوگا۔ وزیراعظم عمران خان کا یہ وژن درست ہے کہ بنیادی کردار کی حامل بیورو کریسی سے بہتر کام لینے کیلئے فی الوقت جو کچھ کرنا ہے، وہ سیاسی حکومت کو کرنا ہے۔

تازہ ترین