• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کسی حکیم کا قول ہے کہ انسان کو دو بندے ہمیشہ یاد رہتے ہیں۔ایک وہ جو مشکل وقت میں ساتھ کھڑا رہے اور دوسرا وہ جو مشکل وقت میں ساتھ چھوڑ جائے۔سابق وزیراعظم نوازشریف واپس لوٹ چکے ہیں۔13جولائی سے لے کر 19ستمبر تک نوازشریف نے بہت کچھ کھو دیا ہے۔اب ان کے پاس مزید کھونے کو کچھ نہیں ۔کینسر جیسے موذی مرض سے لڑتی ہوئی بیمار بیوی کو لندن چھوڑ کر پاکستان لوٹے تو ائیر پورٹ پر ہی گرفتار کرلیا گیا۔ نوازشریف پرامید تھے کہ عام انتخابات سے قبل انہیں ضمانت مل جائے گی مگر ایسا نہ ہوسکا۔پھر نوازشریف کو توقع تھی کہ ان کی جماعت کو 25جولائی کو بھرپور مینڈیٹ ملے گا۔ ایسا بھی نہیں ہوا۔ ماضی میں نواز شریف انتخابات سے قبل اس قدر پرا مید کبھی نہیں رہے، جتنا انہیں حالیہ انتخابات میں کامیابی کا یقین تھا۔ نوازشریف کو سیاسی دشت کی خاک چھانتے ہوئے عرصہ بیت چکا ہے۔اس لئے حالیہ انتخابات کے حوالے سے ان کے اندازے غلط نہیں تھے۔مگرایسا نہ ہوا۔بہرحال پھر کلثوم نواز صاحبہ کی اچانک موت ایک بڑا جھٹکا تھی۔مگر نوازشریف جیسا حوصلہ مند انسان اس جھٹکے کو بھی برداشت کر گیا ہے۔جیل سے سابق وزیراعظم اور ان کی صاحبزادی کی رہائی دراصل نوازشریف کی نئی سیاسی جدوجہد کا آغاز ہے۔کلثوم نواز کو کھونے کے بعد اب نوازشریف کے پاس کھونے کو کچھ نہیں رہا۔کاش کلثوم نواز صاحبہ زندہ ہوتیں تو دیکھ پاتیں کہ ان کے باؤ جی کیسے لڑے،نہ جھکے ،نہ بکے ،بس ڈٹ گئے۔

نوازشریف گردش دوراں کو ٹال کر لوٹ آئے ہیں۔اب نوازشریف کو شاید کسی بھی انجام کی پروا نہیں ہے۔عدالتی فیصلے نے نوازشریف کے ووٹ بینک میں مزید اضافہ کیا ہے۔مسلم لیگ ن کے مایوس اور خاموش ووٹر میں دوبارہ جان آگئی ہے۔مگر ایک بات طے ہے کہ پہلے نوازشریف صرف مسلم لیگ ن کے لیڈر تھے مگر جیل کی سختیوں کو جھیل کر آنے والے نوازشریف آج لیڈروں کے لیڈر بن چکے ہیں۔آج نوازشریف مولانا فضل الرحمان، اسفند یا ر ولی،محمود خان اچکزئی سمیت تمام جمہوریت پسند جماعتوں کے لیڈر بن چکے ہیں۔ایسے ہی نہیں محمود خان اچکزئی اور مولانا فضل الرحمان کئی گھنٹوں کا سفر طے کرکے نوازشریف سے ملنے آتے ہیں۔مولانا فضل الرحمان خود بہت بڑے لیڈر ہیں۔جتنی اسٹریٹ پاور مولانا فضل الرحمان کے پاس ہے ،پاکستان کے کسی لیڈر کے پاس نہیں ہے۔مگر جب ایسے لیڈر نوازشریف کے ساتھ کھڑے ہوں اور اسے انتخابی بے ضابطگیوںکی تحریک کو لیڈ کرنے کا کہہ رہے ہوںتو پھر قارئین نوازشریف کی مقبولیت کا خود اندازہ لگاسکتے ہیں۔ آج جیل کا جو خوف اور بھرم تھا وہ ٹوٹ چکا ہے۔اب نوازشریف کو بالکل بھی اس بات کی پروانہیں ہوگی کہ اس کے کسی فیصلے کے ردعمل میں دوبارہ جیل بھیجا جائے گا۔اب اگر نوازشریف جیل گیا تو مزید مقبول ہوگا۔اس کے ووٹر کا یقین مزید پختہ ہوگا کہ میاں صاحب! کرپٹ نہیں ہیں بلکہ سیاسی انتقام کا نشانہ بن رہے ہیں۔نوازشریف کا باہر رہنا اب حکومت کے مفاد میں ہے۔کیونکہ نوازشریف کو کسی دوسرے ریفرنس میں دوبارہ سزا دے کر جیل بھیجا جاسکتا ہے مگر مریم نواز کو دوبارہ جیل بھیجنا ممکن نہیں رہا۔اگر صرف سیاسی انتقام کے لئے نوازشریف کو دوبارہ جیل بھیجا گیا تو مریم نواز ایسی تحریک چلانے کی بھرپور صلاحیت رکھتی ہیں کہ حکومتی ایوانوں کے در و دیوار ہل جائیں۔حکومت کے لئے نوازشریف سے زیادہ مریم نواز خطرنا ک ہوگی۔تحریک انصاف کی نوزائیدہ حکومت کو ایسے کسی بھی اقدام سے گریز کرنا چاہئے۔جس سے تصادم کا خطرہ ہو۔جیل سے رہائی کے بعد اب تک نوازشریف نے باضابطہ سیاسی سرگرمیوں کا آغاز نہیں کیا۔ان کی مستقبل کی حکمت عملی کے حوالے سے ابھی تک صرف مفروضے ہیں۔مگر نوازشریف کو کبھی کمزور نہیں سمجھنا چاہئے۔سیاسی جماعتیں تب کمزور ہوتی ہیں جب ان کا ووٹر ان کا ساتھ چھوڑ جائے۔نوازشریف کا ووٹر اپنی جگہ موجود ہے۔بلکہ اس کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔آج نوازشریف کے ووٹر کو مایوس کرنے کے لئے ایک منظم پروپیگنڈا کیا گیا کہ کوئی ڈیل ہوچکی ہے۔یہ بات تو درست ہے کہ ڈیل کرنا بہت سے لوگوں کی خواہش ہے مگر نوازشریف ڈیل کو Over his dead bodyسمجھتا ہے۔جس نوازشریف کو میں جانتا ہوں وہ ایک مرتبہ کوئی ارادہ کرلےتو پھر دنیا کی کوئی طاقت اس کا ارادہ نہیں بدل سکتی۔ہاں دو شخصیات تھیں ،جو اس کا ارادہ بدلنے کی قوت رکھتی تھیں مگر اب وہ دونوں اس دنیا میں نہیں رہیں۔نہ ہی میاں محمد شریف مرحوم زندہ ہیں اور نہ ہی کلثوم نواز۔ اس لئے نوازشریف کو کوئی بھی بات یا آفر اس کے مقصد سے پیچھے نہیں ہٹا سکتی۔نوازشریف نے ڈیل کرنا ہوتی تو اپنی بیوی کی زندگی کی خاطر کرتے۔جس شخص نے اپنے نظریے کے لئے جیل جانے سے دریغ نہ کیا ہو ،وہ بھلا آج ڈیل کیسے کرے گا؟

مستقبل کا کسی کو علم نہیں ہوتا مگر حالات و واقعات سے لگتا ہے کہ نوازشریف پاکستان کی تاریخ کی بڑی سیاسی جدوجہد کا جلد آغاز کریں گے۔حکومت کرنا بہت مشکل کام ہوتا ہے۔سیاسی افراتفری کے دوران حکومت کرنا آسان نہیں ہوگا۔عمران خان کو یہ بھی یاد رکھنا چاہئےکہ لمبے عرصے تک انہیں سپورٹ بھی نہیں مل سکے گی۔کچھ نہ کچھ انہیں خود بھی کرنا ہوگا۔اگر نوازشریف کسی قسم کی سیاسی تحریک کاآغاز کرتے ہیں تو اس سے انہیں خود نپٹنا ہوگا۔اپوزیشن کے ساتھ بہتر تعلقات قائم رکھ کر ہی حکومت کی جاسکتی ہے۔وگرنہ اتنی مضبوط اپوزیشن کی موجودگی میں حکومت چلانا مشکل ہوگا۔ابھی ضمنی انتخابات کے نتائج بھی تحریک انصاف کی صوبائی اور مرکزی حکومتوں پر گہرا فرق ڈالیں گے۔اس لئے حکومتی مشکلات کم کرنے کے لئے عمران خان کو بہت کچھ برداشت کرنا ہوگا۔وگرنہ پہلے مرحلے میں پنجاب میں تبدیلی آئے گی اور پھر مرکزی حکومت پر بھی اس کے اثرات پڑیں گے۔گردش دوراں کو ٹال کر لوٹنے والے نوازشریف رائیونڈ میں آرام سے نہیں بیٹھیں گے،بلکہ ہر آنے والا دن تحریک انصاف کی حکومت کے لئے مشکلات پیدا کرے گا۔

حکم یہ نشر کرادو عدم کہ آئندہ

عوام تن کے چلیں، جھک کر شہریار چلے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین