• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

حضرت جون ایلیا نے کہا تھا

وہ زلف ہے پریشاں، ہم سب ادھر چلے ہیں

تم بھی چلو کہ سارے آشفتہ سر چلے ہیں

اب دیر مت لگا چل، اے یار بس چلا چل

دیکھیں یہ خوش نشینیاں آخر کدھر چلے ہیں

خیبر تا کراچی،چترال تا بولان،تبدیلی کی ہوا ایسی چلی کہ جیسا کہ حضرت جون ایلیا بے قرار تھےچلنے کو ، عوام بھی اسی جوش وجذبے سے چلے۔پاکستانی کرکٹ ٹیم کے کپتان کو دنیا کی ساتو یں بڑی ریاست کا والی وارث بنادیا گیا۔ جب کپتان صاحب مسندِ نشیں ہوئے ، اُنہوں نے پہلی ہی فرصت میں عوام پر مہنگائی کا بم چلادیا۔ترقیاتی بجٹ میں305ارب کی کٹوتی کردی۔عوام عش عش کراُٹھے ہیں کہ تبدیلی آگئی ہے اور ایٹم بم کے اثرات بھگتنے کیلئے تیار ی کررہے ہیں۔’اُمید سے ہیں‘ کہ وہ کاسہ گدائی جو محترم ومکرم وزیراعظم صاحب اُٹھائے ہوئے ہیںجلد لبالب آجائیگا۔پھر تمام گرائے جانے والے بموں کے اثرات نہ صرف زائل ہوجائیں گے بلکہ مضراثرات ثمرات میںتبدیل ہوجائیں گے۔کیونکہ بقول ریحام خان کپتان ہاری ہوئی بازی جیتنے کا ہنر جانتے ہیں۔شاعر بھی وزیر اعظم کی سابق ہم نشیں سے اتفاق کرتے ہیں۔

ان کی مسکان سے ملتا ہے بہاروں کا پتہ

وہ تو موسم کو بدلنے کا ہنر رکھتے ہیں

خیر اب وہ مسکان پھیکی ہونے لگی ہے۔اپنے دورہ کراچی میں اُن کی ہر تقریر پھیکی ،معاف کیجئےگا،درد وطن کے سبب سنجیدہ تھی ،جیسے اُنہوں نے فرمایا ’’ جس ملک میں 43 فیصد بچے مناسب خوراک اور ڈھائی کروڑ بچے اسکول جانے سے محروم ہوں، اس ملک میں اشرافیہ ان کے ٹیکس کے پیسوں پر کیسے محلات میں رہ سکتی ہے، میرا فلسفہ ہے،ہم چینی ماڈل کے تحت ملک سے غربت کا خاتمہ کریںگے‘‘۔ تو کیا ہم حکومت کے حالیہ عوام کش اقدامات کو چینی ماڈل کا ٹریلر سمجھ لیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ پاکستان میں پانی پر سب سے زیادہ کام ایک آمر ایوب خان کے دور میں ہوا‘‘ تو کیا اس سے ہم یہ مراد لیں کہ 1960میں آمر ایوب خان نے سندھ طاس معاہدے کے تحت ہمارے ازلی دشمن بھارت پرپاکستان کے جو تین دریا ستلج، راوی اور بیاس فروخت کردئیے تھے ،اگر آمر ایوب خان بھارت پر یہ دریا فروخت نہ کرتے تو آج پانی کا مسئلہ ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جناب وزیر اعظم یہ دریا آپ کے ممدوح آمر نے ہی صرف 8کروڑروپے میں نیلام کردئیے تھے۔حضرت اقبال نے وطن فروشوں ہی کیلئے تو کہا تھا

دہقان و کشت و جوئے و خیاباں فروختند

قومے فروختند و چہ ارزاں فروختند

حضرت فرماتے ہیں... ’’کِسان‘ مرغزار‘ ندیاں اور خوبصورت کھیتیاں باغات ، پوری قوم کو کتنے سستے داموں فروخت کر دیا گیا‘‘

وزیر اعظم مزید فرماتے ہیں ’’ اس وقت پاکستان تیس ہزار ارب روپے کا مقروض ہے۔ وزیر خزانہ اسد عمر اس سلسلے میں کام کر رہے ہیں‘‘ ضمنی بجٹ میں 178ارب روپے کے ٹیکس گویا اسد عمر کے ’اس سلسلے‘ میں کام کی پہلی جھلک ہے‘‘آپ درد مندانہ انداز میںآگے گویا ہوتے ہیں’’ جس ملک کے 43فیصد بچے مناسب خوراک اور ڈھائی کروڑ بچے اسکول جانے سے محروم ہوں اس ملک میں اشرافیہ غریب کے ٹیکس کے پیسوں پر کیسے محلات میں رہ سکتی ہے، جس میں تھوڑا سا بھی خوف خدا ہو اور اسے موت کا ڈر ہو وہ کبھی اس طرح نہیں رہ سکتے‘‘ زندہ باد !یعنی حکومت نے جو ٹیکس لگائے ہیں اس سے ،برپا ہونے والی مہنگائی کا اثر غریب ،غربا پر نہیں پڑیگا بلکہ یہ ان بچوں کو خوراک اور تعلیم دینے کی ایسی ’’اولین ڈوز‘‘ہے،جو دیا تو غریب کوجارہا ہے ،لیکن اس کا منطقی نتیجہ یہ نکل آئیگا،کہ اشرافیہ میں خوف خدا پیدا ہوجائیگا اور وہ خود بخود محلات سے باہر نکل آئینگے۔ان شگوفوں کے باوجود تاہم، ہم مانتے ہیں کہ نہ جانے کیا سِحر، ہے کہ ہم پھر بھی اس سِحر کو نئی سَحَر کا آغاز ماننے پر مجبور ہیں۔

تیرے جلوہ کا مگر رو تھا سحر گلشن میں

نرگس اِک دیدۂ حیران تماشائی تھا

جناب وزیراعظم نے اس موقع پر صاف صاف کہہ دیا’’ڈیم بنانے کیلئے پیسہ نہیں ہے۔اس لئے فنڈجمع کریں گے‘ہر سال 30ارب روپے اکٹھے کرنے ہیں‘‘اب اگر بھاشا اور مہمند ڈیم کے ساتھ کالاباغ ڈیم بھی شامل کرلیا جائے،تو پانچ سال میں جمع ہونے والی رقم(جس کا اس طرح جھولی پھیلانے سے پورا ہونابھی ناممکن ہے) کیونکہ 1998میں صرف ایک کالا باغ ڈیم پر اخراجات کا تخمینہ 2کھرب 27ارب 48کروڑ روپے لگا یا گیا تھا۔جس میں ظاہر ہے کہ 20سال بعد قیامت خیز اضافہ ہوچکاہوگا،تاہم اگر اخراجات بھی1998 والے ہی مان لئے جائیں،تو کیا اس صورت میں مطلوبہ رقم دستیاب ہوسکے گی۔نہ جانے کالا باغ ڈیم کا ایشو چھیڑ کر حکومت اپنی سیاسی اور ریاست کی اقتصادی موت کا اہتمام آپ کیوں کر نے پر تلی ہوئی ہے۔ہاں بھاشا اور مہمند ڈیم کی تعمیر پر اخراجات بھی کالاباغ ڈیم سے کم اور فوائد زیادہ ہونگے، لیکن اس کیلئے بھی مصنوعی طریقے نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوسکتے ۔ اب ظاہر ہے کہ اس پر دو رائے نہیں کہ ملک پانی و اقتصادی بحران سے دوچارہے اور اس کا حل ناگزیر ہے۔ لیکن اس کیلئے جو اقدامات درکارہیں ، موجودہ حکومت نے توآغاز اسکے قطی برعکس کردیاہے۔اس سلسلے میں ماہر معاشیات ڈاکٹر قیصر بنگالی کا کہنا ہے اگر ہمیں ملک کو بحران سے نکالنا ہے تو ہمیں اپنے اخراجات کو گھٹانا، اضافی وزارتوں کو ختم کرنا ہوگا۔ سیکورٹی اخراجات میں کم از کم بیس ٖ فیصد کمی کی ضرورت ہے۔ ہمارا ملک قدرتی وسائل سے مالا مال ہے ہمیں ان کو بروئے کار لانا چاہئے‘‘ اب اگر ہم قدرتی وسائل کے حوالے سے صرف پختونخوا کو دیکھیں تو اس میں اتنے قدرتی وسائل ہیں کہ یہ پاکستان کو ایشین ٹائیگر بناکر دکھا سکتے ہیں۔جی ہاں میں پورے ہوش وحواس سے لکھ رہا ہوں کہ پختونخوا میںصرف تیل و گیس کے اتنے ذخائر ہیں کہ ملک چلانے سے بھی زیادہ ہیں ۔جب مولائے کریم نے دیکھا کہ پاکستانی حکمران تو اتنے نکمے ہیں کہ مانگے ہی کا کھاتے ہیں ، تو اُس ذات رحیم وکبیر نے تیل وگیس کے ذخائر اس قدر زمینی سطح پر اُبھارے ہیں کہ چشمے ذرا کوشش پر اُبل پڑتے ہیں ۔کوئلے ، جپسم کے پہاڑ ،ماربل ، سونے ،ویگر معدنیا ت کے خزانے ہرسو پھیلے ہوئے ہیں۔لیکن ایک تو اب تک نکلنے والی تیل وگیس ،کوئلے کا پتہ ہی نہیں چل رہا کہ ’جناتی‘مخلوق کہاں لے جاتی ہے۔دوم ،ان خزانوں کو دانستہ استعمال میں نہیں لیا جارہا۔اگر ہم پیدائشی سہل پسند ہیں، تو چلئے یہ محنت نہ کریں،اور عمران خان صاحب 100میں صرف ایک وعدہ نبھائیں اور لوٹی ہوئی دولت وطن واپس لائیں ،تو تما م قرض ادا اور ملک ترقی کی جانب گامزن ہوجائے گا۔

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

تازہ ترین