• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

ایف بی آرکے انتظامی ڈھانچے پر حکومتی پالیسی واضح نہیں

اسلام آباد (رپورٹ حنیف خالد)پاکستان تحریک انصاف کے وزیر خزانہ اسد عمر 19-2018کا ترمیمی فنانس بل قومی اسمبلی میں پیش کیا جا چکا ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہے کہ حکومت فیڈرل بورڈ آف ریونیو میں انتظامی ڈھانچے کی بہتری یا تبدیلی کے ضمن میں کیا پالیسی رکھتی ہے۔ ڈاکٹر عشرت حسین کی سربراہی میں سول سروس سٹرکچر کے حوالے سے ٹاسک فورس کی جانب سے کئے گئے فیصلوں کے بہرحال ایف بی آر پر بھی اثرات مرتب ہو سکیں گے۔ دیکھنا مگر یہ ہوگا کہ ان اقدامات کے تھیلے سے کیا برآمد ہوتا ہے اس کے لئے ہمیں مزید کم از کم ساٹھ یوم درکار ہوں گے۔ تاہم ملک کے لئے محصولات اکٹھا کرنے والے ادارے ایف بی آر میں اصلاحات کا شوروغوغا تقریباًبیس برس قبل معین قریشی کے دور وزارت عظمیٰ سے سننے میں آرہا ہے۔ بدقسمتی حقیقت حال یہ ہے کہ اس اہم ترین محکمے میں ریڑھ کی ہڈی سمجھے جانے والی ’’ہیڈ لائن منیجمنٹ‘‘میں بدانتظامی اپنے عروج پر ہے۔ بہرحال جس کا محصولات جمع کرنے پر پڑتا ہے۔ درمیانی ڈھانچے کی بربادی کا آغاز پیپلزپارٹی کی گزشتہ حکومت کے دور میں ہوا جب اس نے اپنے آخری ایام یعنی فروری 2013میں ان لینڈ ریونیو اور کسٹم کے مختلف ذیلی عہدوں یعنی انسپکٹرز، پریوینٹیو آفیسر، سینئر پریوینٹیو آفیسر،انسپکٹر آف پرینیٹو سروسز ،ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کسٹم، ایگزامنرز اور آپریزر وغیرہ کو گریڈ14اور گریڈ15سے اپ گریڈ کر کے ان کے رپورٹنگ افسران یعنی ان لینڈ ریونیو آفیسرز (سابقہ انکم ٹیکس افسر) سپرنٹنڈنٹ کسٹم اور پرنسپل اپریزر کے برابر گریڈ 16کر دیا۔ نتیجتاًفیلڈ فارمیشن میں یہ اہم عہدے جو کبھی گریڈ 11،14 اور 16 میں تقسیم تھے، گریڈ کی ایک ہی چھتری کے نیچے جمع ہوگئے۔
تازہ ترین