• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وقت ضائع کرنا اور بات کا بتنگڑ بنانا کوئی ہم سے سیکھے ۔ جو کام ایک دن میں ہو سکتا ہے اس پر ہم سال بھر سوچتے اور پھر نہیں کر پاتے، البتہ عمر بھر پچھتاتے ضرور ہیں کہ کاش ہم کر گزرتے، کالا باغ ڈیم بھی ہماری اسی عادت کا شکار ہوا اور ابھی ہمارے حکمران اور سیاست دان پچھتانے پر آمادہ نہیں حالانکہ ہر طرف اندھیروں کا راج ہے، سرکلر ڈیٹ نے معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے، سردیوں میں پانی کی قلت اور گرمیوں میں سیلابی پانی ذخیرہ نہ ہونے کی وجہ سے خیبر پختونخوا، پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں جگہ جگہ تباہی ہوتی ہے اور صوبوں کے مابین پانی کی تقسیم پر سال بھر جھگڑا چلتا ہے مگر چند تنگ نظر عناصر کے خوف سے کوئی اس مفید فنی، تکنیکی اور قومی منصوبے میں ہاتھ نہیں ڈالتا اور قومی اتفاق رائے کے بہانے اب لاہور ہائیکورٹ کے فیصلے کی سرعام مخالفت کی جا رہی ہے ۔
معلوم نہیں قومی اتفاق رائے کس چڑیا کا نام ہے؟
باغباں بھی خوش رہے ، راضی رہے صیاد بھی
جمہوری ریاستوں میں فیصلے کثرت رائے سے اور مجموعی قومی مفادات کو مدنظر رکھ کر کئے جاتے ہیں ، کسی بھی فرد یا گروہ کے سیاسی مفادات قومی مفادات پر غالب نہیں آتے ۔قومی اتفاق رائے کی حکومت کی بات ہو تو میں سیاست دانوں کے کان کھڑے ہو جاتے ہیں مگر کالا باغ ڈیم پر اتفاق رائے ؟ مذاق نہیں تو کیا ہے ؟ کچھ نہ کرنے کا بہانہ !بھارت میں صرف ایک صوبہ پنجاب لسانی بنیادوں پر قائم تھا خالصتان تحریک نے زور پکڑا تو پنجاب کو تین صوبوں میں بانٹ دیا گیا کسی نے قومی اتفاق رائے کا نعرہ بلند نہیں کیا ۔ کچھ عرصہ لے دے ہوئی پھر سب خاموش ہو گئے آج سبھی خورشید ہیں ۔
چین میں شنگھائی کے قریب ایک ڈیم کی تعمیر پر تنازعہ کھڑا ہوا مگر حکومت ڈٹی رہی اور آج یہ ڈیم چینی تعمیر وترقی میں اہم کردار ادا کررہا ہے پاکستان میں موٹر وے کی تعمیر پر شوروغوغا کسے یاد نہیں ۔ لاہور کے ریپڈ ٹرانسپورٹ منصوبے کی مخالفت میں دینے والے دلائل موٹر وے مخالفین کے دلائل کے سامنے پرکاہ کی وقعت نہیں رکھتے مگر آج ہم سب کے سب موٹر وے کی تعریف کرتے ہیں اور کبھی کبھی مخالفانہ دلائل پر پچھتاتے اور ہنستے بھی ہیں کہ اس وقت مخالفین کی عقل کہاں گھاس چرنے چلی گئی تھی ۔
کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے مخالفین میں سرفہرست اے این پی کی قیادت تھی، جنرل ضیاء الحق مرحوم کے ساتھی جنرل فضل حق نے صوبے میں مقبولیت حاصل کرنے کے لئے اس ایشو کومتنازع بنایا سندھ کے قوم پرست بعد میں اس مہم کا حصہ بنے مگر خیبرپختونخوا کے سپوت اور واپڈا کے سابق چیئرمین شمس الملک کے سامنے ولی خان سے لیکر رسول بخش پلیجو تک کبھی کوئی ٹھہر نہ سکا۔خان عبدالولی خان نے تو یہ تسلیم کر لیا کہ کالا باغ ڈیم کی مخالفت ہماری سیاسی مجبوری ہے مگر یہ بدقسمتی کی بات ہے کہ محترمہ بے نظیر بھٹو سے لیکر میاں نواز شریف تک اور جنرل ضیاء الحق سے لیکر جنرل پرویز مشرف تک ہر ایک نے اپنی مقبولیت اور ڈنڈے کو ایک قومی منصوبے کی تعمیر کے لئے استعمال کرنے کے بجائے مخالفین کے سامنے سر تسلیم خم کیا یہ جانتے ہوئے بھی کہ بھارت، تھرمل پاور مافیا اور پاکستان کی تعمیروترقی سے خائف کئی دوسری قوتیں کالا باغ ڈیم مخالف لابی کی سرپرست ہیں اور تھرمل منصوبوں کے ذریعے اس نیو کلیئر اسلامی ریاست کو ہمیشہ سرکلر ڈیٹ کے عالمی شیطانی جال میں الجھائے رکھنا چاہتی ہیں ۔تیل کا امپورٹر ملک آخر کب تک تھرمل منصوبوں کی ضروریات پوری کرکے عوام، تاجروں، صنعت کاروں اور سرمایہ کاروں کو سستی بجلی فراہم کر سکتا ہے۔ بالاخر معاشی دیوالیہ پن کا شکار ہو گا ۔یہی گاندھی اور پٹیل کی خواہش تھی ۔کہا جاتا ہے کہ کالا باغ ڈیم پر اصرار کیوں ؟ اس لئے کہ یہ واحد منصوبہ ہے جو اپنے وسائل سے تعمیر کیا جا سکتا ہے سندھ طاس معاہدے کے تحت یہ تربیلا ڈیم سے پہلے تعمیر ہونا تھا کچھ ایوب خان کی خوشنودی کا خیال اور کچھ یہ سوچ کر کہ تربیلا ڈیم کی تعمیر سے حاصل ہونے والی فنی مہارت اور مشینری کو کالا باغ ڈیم کی تعمیر میں استعمال کیا جائے گا یہ منصوبہ موخر ہوا اور پھر اس کی باری کبھی نہ آئی آج بھاشا ، دیامیر پر بھی اسی نوعیت کے اعتراضات ہو رہے ہیں شاہراہ قراقرم کا ایک حصہ متاثر اور وسیع پیمانے پر تباہی کے خطرات مگر چونکہ ایک تو یہ منصوبہ پنجاب میں نہیں دوسرے ابھی تک کوئی عالمی ادارہ قرضہ دینے پر آمادہ نہیں اور ہم اپنے وسائل سے بنانے کے قابل نہیں اس لئے سب خاموش ہیں حالانکہ ماہرین کو اس منصوبے پر تکنیکی و فنی اعتراضات بہت ہیں اس کے باوجود حکومت کالا باغ ڈیم کو ٹھپ کرکے ایک ایسے منصوبے کو شروع کرنے پر مصر ہے جو پانچ سال میں ایک انچ آگے نہیں بڑھ پایا ۔
عدالتی فیصلے کے بعد حکومت چاہے تو یہ منصوبہ شروع کر سکتی ہے قومی مفادات کونسل پہلے ہی اس کی منظوری دے چکی ہے اور جب یہ منصوبہ شروع ہو گیا تو موٹر وے، پنوں عاقل چھاؤنی، منگلا ڈیم توسیعی منصوبے کی طرح اس کی مخالفت بھی بالاخر دم توڑ جائیگی جب ہزاروں لوگوں کو روزگار ملا، سیمنٹ اور لوہا انڈسٹری کو بوم آیا، سندھ، خیبر پختونخوا اور پنجاب کے عوام کو بجلی کی قلت دور ہونے کی امید پیدا ہوئی جو موجودہ صورتحال میں 2020ء تک جاری رہے گی ، لاکھوں ایکڑ اراضی آباد ہونے کا یقین ہوا اور ہر سال سیلاب کے عذاب سے نجات ملی تو کون بدبخت عوام کی مخالفت مول لیکر اس کے خلاف آواز بلند کرے گا ۔ جبکہ عوام کو یہ بھی بتایا جا سکتا ہے کہ کالا باغ ڈیم مخالف لابی کو بھارت، تھرمل پاور لابی اور دیگر پاکستان دشمن قوتوں کی طرف سے بھاری فنڈز مہیا کئے جا رہے ہیں جنرل پرویز مشرف دور میں آٹھ ارب روپے کے اعدادوشمار شائع ہوئے تھے۔
رہا قومی اتفاق رائے تو یہ حکومت کا کام ہے یا سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری، وہ کریں کس نے روکا ہے ۔ ظاہر ہے کہ بھارت تو یہ کام کرکے نہیں دے گا جو ہمارے دریاؤں پر دھڑا دھڑ ڈیم بنا رہا ہے اور ہم صرف شور مچاتے رہتے ہیں ۔ خود کچھ کرتے نہیں اور دوسروں کو بھی کچھ کرنے سے روکتے ہیں ۔ وقت ضائع کرنے اور بات کا بتنگڑ بنانے کی عادت نے ہمیں کہیں کا نہیں چھوڑا ۔ کالا باغ ڈیم بھی ہماری اس بدعادتی کا شکار ہوا سچ پوچھیں تو ہماری قومی قیادت متفق صرف سٹیٹس کو برقرار رکھنے اور لوٹ مار کے موجودہ عوام دشمن نظام کی بقا و دوام پر ہے ہاں خاندانی قیادت پر بھی !
تازہ ترین