• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

کراچی میں سیف سٹی پروجیکٹ پوری طرح فعال نہ ہو سکا

کراچی دنیا کے ساٹھ ملکوں سے بڑا شہر ہے مگر یہاں سیف سٹی پروجیکٹ پوری طرح فعال نہ ہو سکا۔

دو کروڑ افراد کا مسکن ہے یہ شہر ایک دھائی تک بدامنی یہاں بسیرا کئے رہی، شہر نے وہ دن بھی دیکھے جب یہاں روز لاشیں گرتی تھیں۔

شہر کی پولیس کے لئے اس ناسور کو قابو کرنا مشکل تھا۔

آج شہر پرامن ہےلیکن دہشت گردی کی چادر ہٹی ہے تو نیچے چھپا۔ اسٹریٹ کرائم کاناسور سامنے آیا ہے۔شہر کی چھتیس ہزار پولیس نفری اسے قابو کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ لیکن ہر گلی ہرمحلے، انڈر پاس ، بازار تک وہ پہنچنا بھی چاہے تو نہیں پہنچ سکتی ہے۔ شاید دنیا کے کسی شہر کی پولیس ایسا نہ کرسکے۔

جدید دنیا نے اس مسئلے کا حل سی سی ٹی وی کیمروں میں تلاشہ ہےمگر یہاں یہ انتظام بھی نہیں ۔ کراچی میں چند سو کیمرے جو کسی زمانے میں لگائے گئے تھے ، اس سے مجرم کی شناخت ناممکن ہے۔

صوبائی حکومت کو اس بات کا ادراک ہے ،۔اس لئے اکتوبردوہزار سترہ میں شہر کو محفوظ بنانے کے لئے سیف سٹی پروجیکٹ کا منصوبہ بنایا ۔

وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ نے کہا تھاکہ شہر کے داخلی اور خارجی راستوں سمیت تین ہزار مقامات پر ، اچھی ریزولوشن کے دس ہزار کیمرے لگائے جائیں گے۔ کیمروں کا کمانڈ اینڈ کنٹرول آئی جی پولیس کے پاس ہوگا، اور اس منصوبے کی افرادی قوت کی تربیت میں ناروے مدد کرے گا۔

وزیر اعلی کو یہ بات کہے اگلے مہینے سال ہو جائےگا۔ کراچی کو پرامن بنانے کے لئے ماڈرن پولیسنگ ناگزیر ہے ۔

تازہ ترین