• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان میں بائیں بازو نے رخت دل باندھی ہے۔ اب دلفگاروں کی ہمت کا امتحان سر پر آن پہنچا ہے۔ بائیں بازو کی جماعتوں کے گزشتہ ہفتے ہونے والے ادغام (Merger) نے بہت سے پرانے اور نئے انقلاب کے پرستاروں اور جمہوریت کے علمبرداروں کو ایک پرچم تلے سست و رقصاں ہونے کا پیغام دیا ہے۔ اب دیکھیں شہر جاناں اُن کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے۔ وجود میں آنے والی نئی بائیں بازو کی سیاسی جماعت جس کا نام عوامی ورکرز پارٹی ہے۔ نئی رُت اور نئی صبح کا پیغام لاتی ہے۔ یا اس کے بانی اور ارکان گزرے سفر کی گرد ہی اتارتے رہتے ہیں۔ یوں تو گزشتہ تیس برسوں سے لیکن سوویت یونین ٹوٹنے کے بعد بالخصوص دنیا بھر میں بائیں بازو کی تحریک شدید صدمے سے دوچار رہی ہے۔ کئی طرح کے کنفیوژن زیر بحث رہے ہیں۔ مایوسی نے بھی بے شمار Activists کو سیاسی بے عملی سے دوچار کیا ہے لیکن دوسری طرف سرمایہ داری کے تضادات نے لوگوں کو جھنجوڑا ہے۔ سرمایہ داری کے ٹھیکیدار دنیا کو بند گلی کی طرف دھکیل رہے ہیں۔ پاکستان میں سرمایہ داری کے پٹھو اور مذہب کے نام پر سیاست کا کاروبار چمکانے والے ملاں 18 کروڑ عوام کو گھپ اندھیروں کی طرف لئے جا رہے ہیں۔ ایسے میں عوامی ورکرز پارٹی کا وجود میں آنا چلچلاتی دھوپ اور گرمی میں سرد اور پرنم ہوا کا جھونکا ہی سمجھنا چاہئے۔ چھوٹے چھوٹے دھڑوں کا ایک پارٹی کی شکل اختیار کرنا سب کو اچھا لگا ہے۔ اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یہ پارٹی پاکستان کے مخصوص مزاج میں خود کو کتنا عوام کے مطابق ڈھالتی ہے اور عوام کو کتنا اپنی جانب مبذول کراتی ہے۔ گزشتہ تیس برسوں میں پاکستان کے اندر Reactionary سیاست اور مزاج خوب پھلا پھولا ہے۔ سوسائٹی زیادہ رجعت پسندی کی طرف گئی ہے۔ مذہبی رجحانات مضبوط ہوئے ہیں۔ گو کہ مذہبی عناصر اِس رجعت پسند رجحان سے اپنی جمہوری عمل کی انتخابی ساکھ میں کوئی بہتری نہیں لا سکے تاہم عوام کے اندر مذہبی روایت نے اپنی جڑیں مضبوط کی ہیں جس کے اسباب پاکستان کی بناوٹ اور ساخت میں بھی پنہاں ہیں اور ریاستی اداروں کی نوآبادیاتی ذہنیت نے بھی اسے بڑھاوا دیا ہے۔ بگڑتی ہوئی معاشی صورتحال نے جلتی پر تیل کا کام کیا ہے۔ جس سے جرائم پیشہ رجحانات میں تو اضافہ ہوا سو ہوا۔ البتہ سیاسی عناصر کے اندر مجرمانہ کیفیات کافی حد تک بڑھ چکی ہیں۔ ایسے حالات میں عوامی ورکرز پارٹی عوام کو کیا دے سکتی ہے۔ اِس پر تھوڑی بحث کرتے ہیں۔ لیکن اِس سے پہلے یہ بات سمجھنا بھی ضروری ہے کہ یہ نومولود جماعت جس میں مختلف پس منظر رکھنے والے لوگ مدغم ہوئے ہیں۔ اُسے کس طرح اپنی شکل اور وجود کو تمام تر نظریاتی اور Tactical اختلاف عمل ہوتے ہوئے وجود سالم اور قائم و دائم رکھنا ہے۔ بلکہ اس ادغام کی زندگی کا انحصار ہی اِس مسئلے پر برداشت اور درگزر میں پنہاں ہے۔ آپس کے باہمی اعتماد کو تمام لوگ کیسے چلاتے ہیں۔ یہی چیلنج ہے۔ پارٹی میں Moderate گروپس اور افراد اپنا اپنا طویل سیاسی پس منظر رکھتے ہیں۔ ایک گروپ نے ماضی میں کئی دہائیاں ماؤسٹ Maoist سیاست کی ہے تو دوسرے نے اتنا ہی عرصہ کمیونسٹ روس نواز جبکہ تیسرا گروپ ٹرائسکی آئیٹ سیاست کا علم لئے پھرتا رہا ہے۔ لیکن وقت نے سب کو سکھایا بھی بہت کچھ ہے اگر کچھ نہ سیکھا ہوتا تو شاید آج ضم نہ ہوپاتے۔ یہی آپسی اختلافات انہیں عوام سے دور کئے ہوئے تھے۔ کارکنوں کا دباؤ کئی مرتبہ اِن گروپس کو ایسے موڑ تک لے گیا کہ انہیں اتحاد کرنے پڑے۔ لیکن ماضی میں کی گئی ایسی کئی کوششیں نتیجہ خیز ثابت نہ ہوئیں یہی وجہ رہی ہے کہ پاکستان میں بایاں بازو کبھی بھی انٹی اسٹیبلشمنٹ Anti Establishment threat کے طور پر سامنے نہیں آسکا۔ حتیٰ کہ جنرل ضیا الحق کے دور میں بھی زیر عتاب وہی بائیں بازو کے کارکن آتے رہے جو جمہوریت کی بحالی کے لئے کام کرنے والوں کے ساتھ مل کے کام کرتے رہے ہیں۔ خالص بائیں بازو کی انقلابی سیاست کبھی بھی اقتدار کے ایوانوں میں خطرے کی گھنٹی نہیں سمجھی گئی۔ بلکہ ایک دفعہ ضیا دور میں ایک دوست نے دوران تفتیش اپنے تفتیشی افسر کو کہا کہ تم مجھے پکڑ کے لے آئے ہو۔ جبکہ ہم تو صرف جمہوریت کی بات کررہے ہیں۔ جبکہ فلاں فلاں اتنی انقلاب کی بات کرتے ہیں تم نے انہیں نہیں پکڑا۔ تو اُس افسر نے کہا کہ ہمیں پتہ ہے کہ انقلاب نے نہیں آنا۔ لیکن جمہوریت تو آجاتی ہوتی ہے۔ اس لئے تم لوگ ہی خطرہ ہو۔ یہ چھوٹی سی مثال بائیں بازو والوں کا پورا المیہ بیان کررہی ہے۔ تاہم آج کے مخصوص ملکی حالات نے بائیں بازو کو عوام سے جڑنے اور اُن کی رہنمائی کا موقع دیا ہے۔ یہ تو اب قیادت اور کارکنوں کا ٹیسٹ ہے کہ اِس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے کس طرح اپنی سیاست کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ بائیں بازو کے بیشتر پرانے کارکنوں اور دانشوروں کا ایک یہ بھی مسئلہ رہا ہے کہ وہ عوام کی ذہنی کیفیت کو ساتھ لے کر چلتے ہوئے بتدریج تبدیلی کی راہ سے گزارنے کی بجائے ڈائریکٹ اور ثقیل انقلاب کا درس دینا شروع کردیتے ہیں۔ جس کے نہ تو پاکستان میں امکانات ہیں اور نہ ہی حالات، جس وجہ سے لوگ بھاگ جاتے ہیں۔ کارکن ایسی ایسی سیاسی اور انقلابی اصطلاحات استعمال کرتے ہیں کہ جیوے جیوے کے نعرے لگانے والا اُن کا منہ دیکھتا رہ جاتا ہے۔ اس رویے پر شدید خود تنقیدی کی ضرورت ہے اور لوگوں کو وہیں سے ساتھ لے کر چلنے کی ضرورت ہے جہاں پر وہ کھڑے ہیں۔ پاکستان میں گزشتہ پینتیس برسوں میں لوگوں (عوام) میں اختلاف رائے کو برداشت کرنے میں کمی آئی ہے۔ کیونکہ ریاستی اداروں کی پشت پناہی سے انتہا پسندوں نے خود کو ایک مضبوط Threat کے طور پر منوایا ہے جس سے بائیں بازو مضبوط ہوتا نظر آئے گا۔ تمام دائیاں بازو اس کے خلاف ایک صف میں ہوجائے گا اور ریاست بھی ان کے ساتھ کھڑی ہوگی۔ پاکستان کے ریاستی اداروں میں بائیں بازو کی سیاست اور مزاج کو برداشت کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اِن اداروں کے نوآبادیاتی مزاج کے ساتھ معاشی مفادات جڑے ہوئے ہیں۔ اس لئے یہ سمجھنا کہ یہ بایاں بازو ملک میں بڑی تبدیلی کا پیمبر بن کے ابھرے گا تو ایسا تو کچھ محسوس نہیں ہوتا۔ البتہ ایک موثر پریشر گروپ کی حیثیت ہی منوالے تو اسے تاریخی کارنامہ Achievement سمجھنا چاہئے۔ تاہم پاکستان میں بائیں بازو نے گو کہ کبھی عدددی اعتبار سے پاپولر سپورٹ کا مظاہرہ نہیں کیا۔ تاہم اِن کا نقطہ نظر عوام میں بہتر اور مختلف چوائس ضرور سمجھا جاتا ہے جس سے لوگوں کو اپنے ایشوز کو مختلف زاویے سے دیکھنے کی راہ ضرور ملتی ہے۔ یہی چیز فی الحال اس پارٹی کو پاکستان کے سیاسی منظر نامے میں طاقت Strength دے گی۔ اِس وقت اِس پارٹی کو جو سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے اور رہے گا وہ پاپولر لیڈر شپ کی عدم موجودگی۔ عابد حسن منٹو لوگوں میں سیاستدان کے طور پر کم آئینی اور قانونی ماہر کے طور پر زیادہ جانے جاتے ہیں۔ فاروق طارق اور دوسرے عناصر کو موجودہ بورژوا منظر نامے میں معتبر ٹھہرنے کے لئے جس قسم کے جتن کرنے کی ضرورت ہوگی وہ مراحل کافی مشکل نظر آتے ہیں کیونکہ پارٹی میں جو لوگ موجود ہیں وہ تنظیمی کام اور دانشوری میں تو اپنا مقام رکھتے ہیں۔ جس سے اُن میں چھوٹے گروپ اور یونٹ چلانے کی صلاحیت تو نظر آتی ہے لیکن پاپولر جمہوری کرشمہ سازی میں کمی ہے۔ اہم سوال یہ بھی ہے کہ اگر انہیں کوئی پاپولر صلاحیتوں کی قیادت مل بھی جائے تو کیا پارٹی اُسے دل سے قیادت مانتے ہوئے اُس کے پیچھے کھڑی ہو سکے گی یا اُس لیڈر شپ کے بورژوا سیاست کے مزاج کے ساتھ نباہ کر سکے گی کیونکہ ماضی میں ایسے کئی تجربے ہوئے جو کامیاب نہیں ہو پائے۔ میں نہیں کہتا کہ اب بھی ایسا ہی ہوگا یقیناً اِس لائن پر بہتر نتائج کی توقع کرنی چاہئے۔ پارٹی اور قیادت کس انداز سے اپنا منشور لوگوں تک لے کے جاتی ہے۔ اس کا انحصار پارٹی کے انداز اور ٹیکنیک پر ہے۔ انہیں اچھے سیاسی مکینک کی بھی ضرورت ہے اور بہترین ڈرائیوروں کی بھی جو اِس ترقی پسند گاڑی کو صحیح راہِ منزل پر چڑھادے۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سوشلزم کا نعرہ ساتھ لے کر چلنے کی دعویدار یہ پارٹی کس طرح عوام میں اپنی مقبولیت بنائے گی۔ یہ بات تو درست ہے کہ اِس پارٹی کے پاس انتھک محنت کرنے والے کارکنوں کی کمی نہیں ہے لیکن ایسی سیاسی جماعتوں کا مسئلہ یہ ہوتا ہے کہ جب وہ تنظیم سازی کی طرف توجہ دیتے ہیں تو کھلی جمہوری سیاست سے کٹ جاتے ہیں۔ جن کا فوکس کھلی جمہوری سیاست کی طرف ہوتا ہے۔ وہ تنظیم سازی کی اہمیت کو نظر انداز کر بیٹھتے ہیں۔ اب AWP کے لئے یہی کمال توازن دکھانے کا وقت ہے۔ لاکھوں نئے اور پرانے سیاسی لوگوں کی یہ دلی تمنا ہے کہ وہ اپنی زندگی میں سب کچھ مثبت ہوتا ہوا دیکھیں اور عوام کو ترقی پسندی کے ثمرات سے لطف اندوز ہونے کا چانس ملے۔ کیونکہ یہ بے چارے عوام ہی ہیں جو دہائیوں اور صدیوں سے دھوکے اور محرومیاں سہتے آرہے ہیں۔
تازہ ترین