• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
معاشی حقائق…سکندر حمید لودھی
اللہ تعالیٰ کا خاص شکر ہے کہ پاکستان میں یوم عاشور پورے امن اورسلامتی سے گزر گیا۔ کسی بھی جگہ کوئی ناخوشگوار واقعہ نہیں ہوا۔ اس کا کریڈٹ پاکستان کے سیکورٹی اداروں کو جاتا ہے، اگر خدانخواستہ ایسا کچھ پریشان کن واقعہ ہوتا تو یہ شاید پی ٹی آئی کی حکومت کے لئے نیک شگون نہ ہوتا۔ اس لئے کہ بھارت، اسرائیل گٹھ جوڑ کے تحت وہاں کے ادارے تاک میں رہتے ہیں کہ پاکستان میں کسی نہ کسی بہانے امن و امان کی صورتحال خراب کی جائے اور سلامتی کے حوالے سے خطرات بڑھائے جائیں، بہرحال اللہ کا شکر ہے کہ یوم عاشور پرامن ماحول میں گزرگیا۔ یوم عاشور سے ایک روز قبل پنجاب کے دوسری بار بننے والے گورنر چوہدری محمد سرور نے مختلف قومی اخبارات کے کالم نگاروں کو ظہرانے پر مدعو کیا اور اس سے قبل سی پی این ای کے عہدیداروں سے ان کے امور پر ملاقات کی۔ گورنر چوہدری محمد سرور دوبارہ یہ منصب سنبھالنے کے بعد بالکل وہی انداز اپنائے ہوئے تھے، جو ان کا 30۔35سالہ سادہ زندگی کا شعار رہا ہے۔ ان کا انداز گفتگو ایسے ہی تھا جیسے ایک منجھے ہوئے، سیاستدان سب کچھ جانتے اور سمجھتے ہوئے بھی بڑی سادگی سے سینئر صحافیوں سے پوچھ رہے تھےکہ عمران خان کی حکومت گورنر ہائوس تک عوام کو رسائی دینے سے لے کر پولیس، تعلیم، صحت اور دیگر سماجی شعبوں میں بہت کچھ کرنا چاہتی ہے۔
اس سلسلے میں آپ رہنمائی کریں، ایسے میں مجھے اچھے وقتوں کے بڑے قدر آور سیاستدان میاں ممتاز دولتانہ، نواب ممدوٹ، غلام مصطفیٰ جتوئی، فاروق لغاری ، محمد حنیف رامے، ملک معراج خالد، غلام مصطفیٰ کھر سمیت کئی شخصیات یاد آرہی تھیں جو ایسے ہی مشاورت سے معاملات چلاتی رہی ہیں۔ حتیٰ کہ زیڈ اے بھٹو اور پنجاب کے ایک سابق گورنر چوہدری الطاف بھی یہی انداز اپناتے تھے۔ بہرحال گورنر چوہدری سرور نے دوستوں کی ہر بات غور سے سنی اور اس طرح گورنر ہائوس میں صرف ایک اتوار کے وزٹ میں 20ہزار سے زائد افراد کی آمد پر خاصی بات چیت ہوئی، اس حوالے سے دوطرفہ یہ رائے سامنے آئی کہ عوام کی گورنر ہائوس آمد ورفت کے حوالے سے کچھ موثر انتظامی اقدامات اور گورنر ہائوس کی خوبصورتی بچانے کی ضرورت ہے۔ اس حوالے سے گورنر پنجاب نے بھی ایک سوال کے جواب میں اشارۃ کہا کہ آئندہ کے لئے ٹکٹ لگانے پر بھی سوچا جاسکتا ہے جس کے بعد ہم نے سوچا کہ گورنر صاحب کے ظہرانے کے بجائے انہیں ان کالموں کے ذریعے یہ تجویز دی جائے کہ گورنر ہائوس کا ایک خاص گیٹ اور ایریا عوام کے وزٹ کے لئے ہفتہ وار کھولنے میں کوئی حرج نہیں ہے جیسے امریکہ میں صدارتی آفس وائٹ ہائوس میں عوام کو ایک خاص ایریا تک رسائی دی جاتی ہے لیکن انہیں صدر کے آفس یا بیک لان ایریا میں رسائی نہیں دی جاتی۔ جہاں تک انٹری ٹکٹ کا سوال ہے۔ وائٹ ہائوس سے لے کر کینڈی پیس سینٹر تک ایسا کوئی رواج نہیں ہے۔ اس لئے گورنر ہائوس میں انٹری ٹکٹ لگانے کے لئے بہترین طریقہ یہ ہے کہ یہ نہایت مناسب شرح کا ہو، جس کو ’’گورنر ہائوس ڈیم فنڈ‘‘ کے ساتھ لنک کردیا جائے۔ اس طرح اگر ہر ہفتے پانچ ہزار افراد بھی گورنر ہائوس وزٹ کریں گے تو ان کی طرف سے دئیے جانے والے دس بیس روپے کی کوئی بڑی مالی اہمیت نہیں ہوگی اور نہ ہی اس سے گورنر ہائوس کے خزانے بھر جائیں گے، بس اس سے قوم میں ڈسپلن لانے اور انہیں قومی تعمیر نو کے کاموں میں اپنا اپنا حصہ ڈالنے کا عادی کرنا آسان ہوگا جو مجموعی طور پر امیر و غریب کی بڑھتی ہوئی تفریق کی وجہ سے قوم کی عادات ہماری پارلیمنٹ، جمہوریت اور فوجی غیر فوجی حکمرانوں نے نہیں ڈالی۔ یہ اتنا بڑا قومی المیہ ہے کہ آج ملک میں مالی وسائل کے بحران سے زیادہ اخلاقی حوالے سے اعتماد کا بحران قوم کو پریشان کئے ہوئے ہے۔ دنیا بھر میں اخلاقی اقدار، سرمایہ کاری، تجارت اور معاشی ترقی سے زیادہ سمجھی جاتی ہیں۔ اس حوالے سے گورنر چوہدری سرور سے زیادہ کوئی اور کیا بتاسکتا ہے جن کی زندگی کے بہترین سال دنیا کی مہذب ترین قوم اور ملک میں گزرے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پاکستان میں ایک سیاستدان ہوتے ہوئے بھی اپنے رویے اور اخلاق سے پہلے اچھا انسان ہونے کا ثبوت دیتے ہیں اور پھر بات آگے بڑھاتے ہیں۔
(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)
تازہ ترین