• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
میں پچھلے کئی دنوں سے دبئی میں ہوں۔ شاید ہفتہ عشرہ اور بھی لگ جائے۔ جب کبھی پاکستان سے باہر جانا ہوتا ہے ایک احساس دھیمی دھیمی آنچ کی طرح سلگنے لگتا ہے کہ ہمارے اندر کون سی کمی ہے کہ ہم تہذیب و تعمیر اور ترقی و خوشحالی کی دوڑ میں پیچھے لڑھکتے جارہے ہیں؟ کیا اس کا سبب سیاسی عدم استحکام ہے؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ ہماری فوجی، جمہوری ، روایتی اور انقلابی ہر نوع کی قیادتیں ایک دوسرے کو اڑنگی دینے، پچھاڑنے اور اقتدار کا کھیل کھیلنے کا ہنر جانتی ہیں اور ان کے پاس ایسا کوئی نسخہ کیمیا نہیں جو ایک ہمت شعار افرادی قوت کو نئی منزلوں کا شعور دے سکے؟ کیا اس کا سبب عوام ہیں جو مختلف النوع تعصبات کے باعث پاکستانیت کے جذبے سے سرشار قیادت منتخب کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے؟ کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی بھی جماعت کو جم کر حکومت کرنے اور یکسوئی کے ساتھ اپنا ایجنڈا پورا کرنے کا موقع نہیں دیا گیا؟ یا کیا بنیادی وجہ یہ ہے کو ہم قوم کے بجائے ایک گروہ یا بھیڑبنتے جارہے ہیں اور ہمارے درمیان کوئی دو چار بڑے اہداف و مقاصد پر بھی کامل اتفاق رائے نہیں ہے جو پیش قدمی کے لئے ضروری ہوتا ہے؟
وزیر آغا مرحوم نے اپنے ایک خوبصورت انشائیے میں بتایا تھا کہ مسافر اور سیاح میں کیا فرق ہوتا ہے۔ خلاصہ یہ ہے کہ سیاح، تفریح و سیاحت کے شوق میں کسی دن نکل کھڑا ہوتا اور سامان و اسباب کے آشوب سے آزاد نگری نگری گھومتا رہتا ہے۔ مسافر، اسباب کی قید سے آزاد نہیں ہوسکتا اور وہ کہیں بھی چلا جائے اس کے دل و دماغ، مجبوریوں اور سوچوں کی ایک ان دیکھی زنجیر میں بندھے رہتے ہیں۔ ہم میں سے بیشتر کا یہی حال ہے۔ میں جہاں بھی جاؤں ، دیکھتا ، سوچتا اور کڑھتا ہی رہتا ہوں کہ ہم ایسا کیوں نہیں بن سکتے؟ بغل میں دبی پوٹلی کے اندر سے ایک بچھو مسلسل ڈنگ مارتا ہی رہتا ہے اور شوق سیاست کی پشت پر مسافرانہ نفسیات کے کوڑے برستے ہی رہتے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ سمندر پار پاکستانی، چاہے وہ کتنے ہی آسودہ حال کیوں نہ ہوں، کڑھتے رہتے ہیں۔ محفل کتنی ہی دلکش و رنگین کیوں نہ ہو، ان کے سوالات اور ان کی گفتگو ، پاکستان کے دائرے سے نکلنے نہیں پاتی۔ دیار غیر میں برسوں سے مقیم ، بڑے بڑے کاروبار کرنے اور بڑی بڑی تجوریاں رکھنے والے بھی، سرِشام اس سوال سے ضرور دوچار ہوتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے؟
آج صبح نیٹ پر ایک پاکستانی اخبار نے بتایا کہ بھارت کے زرمبادلہ کے ذخائر تین سو ارب ڈالر کو چھونے جارہے ہیں اور ہم 13/ارب ڈالر کے آس پاس ہیں جن میں تیزی سے کمی کا امکان ہے کہ آئی ایم ایف سے لئے گئے قرضوں کی ادائیگی کا عمل شروع ہونے کو ہے۔ میں نے اسے نظر انداز کرکے یہاں کے مقامی اخبار کی اس خبر سے آسودگی سمیٹنے کی کوشش کی کہ بھارت میں ڈینگی کے شکار افراد کی تعداد35ہزار سے تجاوز کرگئی ہے جبکہ پاکستانی پنجاب نے اس ضمن میں شاندار ریکارڈ قائم کیا ہے۔ درست کہ ہمارے پاس تفاخر کی کئی تسکین بخش مثالیں بھی ہیں لیکن اس پیراہن صد چاک کا کیا کریں جس کی بخیہ گری ہر گزرتے دن کے ساتھ مشکل تر ہوتی جارہی ہے۔
متحدہ عرب امارات ان دنوں اپنا اکتالیسواں قومی دن منارہی ہیں۔ یہاں دبئی میں چار سو جشن کا سماں ہے۔ چھوٹی بڑی دکانیں، چمکتے دمکتے اسٹور، سرکاری و نجی عمارتیں اور گاڑیاں قومی پرچموں سے آراستہ ہیں۔ اس موقع پر منعقد ہونے والی کابینہ کے خصوصی اجلاس نے ایک دس نکاتی ایجنڈے کی منظوری دی۔ یہ کہ 2013ء امارات کا سال ہوگا اور تمام پالیسیاں اسی قومی ترجیح پر مبنی ہوں گی، یہ کہ آئندہ نسلوں کو اپنی میراث سے متعارف کرانے کے لئے ایک بڑا نیشنل میوزیم بنایا جائے گا، یہ کہ حکومت چھوٹے اور درمیانے درجے کے کاروبار کی بھرپور حوصلہ افزائی کرے گی اور وسائل کا کم از کم دس فی صد نوجوانوں کے منصوبوں کے لئے وقف ہوگا، یہ کہ شیخ زید بن سلطان النہیان مرحوم کی یاد میں19رمضان المبارک کو ”یوم انسانیت“ کے طور پر منایا جایا کرے گا، یہ کہ قومی مصنوعات کے معیار میں اتنی بہتری لائی جائے گی کہ ”میڈ ان یواے ای“ فخر کا نشان بن جائے، یہ کہ تمام تعلیمی اداروں میں گریجویشن کے لئے ”مطالعہ امارات“ ایک لازمی مضمون ہوگا، یہ کہ قوم، خاندان اور معاشرے کے حوالے سے شہریوں کی تعلیم و تربیت کے لئے ”قومی اخلاقیات و اقتدار“ کا ایک ضابطہ جاری کیا جائے گا، یہ کہ تمام اسکولوں کے نصاب تاریخ میں متحدہ عرب امارات کے بزرگوں کا مطالعہ پر مشتمل مضمون شامل کیا جائے گا، یہ کہ ہر سرکاری عمارت پر قومی پرچم مستقلاً لہراتا رہے گا اور یہ کہ ایسے پرچموں کے لئے عام مقامات پر بھی فلیگ پوسٹس بنائی جائیں گی۔ بتایا گیا ہے کہ اگلے اٹھارہ برس یعنی2030ء تک ہر سال بجلی کی پیداوار میں چار سے پانچ فی صد تک اضافہ ہوگا۔ دبئی میں سورج سے توانائی حاصل کرنے کا ایک بڑا منصوبہ شروع ہے۔ شیخ محمد بن راشد سولر پارک 2030ء تک ایک ہزار میگاواٹ بجلی فراہم کرنے لگے گا۔
جو لوگ یہاں آتے جاتے رہتے ہیں۔ انہیں اندازہ ہے کہ دیکھتے ہی دیکھتے ایک جلتے بلتے ریگستان میں کیوں کر ایک جہان تازہ آباد ہوگیا ہے۔ دبئی یقیناً یورپ کو مات کرنے لگا ہے۔ گردوپیش کے لوگ اب بچوں کے ہمراہ یورپ کی انتہائی مہنگی تفریح کے بجائے دبئی کو ترجیح دینے لگے ہیں۔ زبردست اقتصادی دھچکے کے بعد دبئی پوری طرح سنبھل گیا ہے اور آگے بڑھنے لگا ہے۔ اس شہر خوش جمال کی نمو میں سب سے زیادہ لہو اہل پاکستانی کا ہے جو آج بھی یہاں زندگی کے مختلف شعبوں میں اپنے ہنر کے کمالات دکھا رہے ہیں۔ مجھے غنی کاشمیری کا شعر یاد آرہا ہے
غنی روز سیاہ پیر کنعاں را تماشا کن
کہ نور دیدہ اش روشن کند چشم زلیخا را
اے غنی! پیر کنعاں ، حضرت یعقوب  کی کم نصیبی دیکھو کہ ان کی آنکھوں کا نور، چشم زلیخا میں جا بسا ہے)
سیاست اپنی جگہ ، نفرتیں اور محبتیں بھی بجا، لیکن بے لاگ جائزہ ضرور لینا چاہئے کہ ہمارے حکمرانوں نے ملک وقوم کو کیا دیا۔ پیپلز پارٹی کے پندرہ سالہ اقدار اور مسلم لیگ (ن) کے پانچ سالہ حکمرانی کا بے لاگ تقابل ضرور ہونا چاہئے۔ آنکھیں بند کرکے لاٹھی گھما دینا ، تقاضائے حب الوطنی کے خلاف ہے۔ ملک کو ٹھوس ، سنجیدہ خو، محب وطن اور تعمیر وترقی کا عزم راسخ رکھنے والی حقیقت پسند قیادت کی ضرورت ہے۔ یہ کار عظیم، نو دن میں کرپشن ختم کرنے اور نوّے دن میں پاکستان کی کایا پلٹ دینے والے ”جادوگران ِانقلاب“ کے بس کا نہیں۔
تازہ ترین