• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
رابطہ … مریم فیصل
انتہائی افسوس کا وقت ہوتا ہے جب زندگی بھر ساتھ نبھانے کے وعدے کرنے والا ہم سفر ہم سے جدا ہو جائے ۔لیکن بحیثیت مسلمان ہمارا یقین ہے کہ موت تو بر حق ہے اور یہ زندگی تو بس عارضی ہے۔ تین بار وزیر اعظم کا منصب سنبھالنے والے میاں محمد نواز شریف کے لئے بھی یہ وقت بہت دکھ ہے کہ ان کا ہم سفر اب ان کے ساتھ نہیں رہا ۔ تین بار خاتون اول کا خطاب پانے والی بیگم کلثوم نواز کینسر کے موذی مرض سے لڑتے لڑتے اس فانی دنیا ے رخصت ہوگئی ہیں۔ اناﷲ وا انا الیہ راجعون۔ بڑاصدمہ ہے بہت دکھ ہوا ۔ یقینا ہم سفر کی کمی کوئی پر نہیں کر سکتا اور ہم سفر بھی ایسا جو ہم مزاج بھی ہو اور نہ صرف بیوی کا فرض بہترین طریقے سے نبھایا بلکہ سیاست کے مشکل دور میں بھی میاںصاحب کے لئے کھڑی رہی تھیں ۔ بیگم کلثوم نواز کے انتقال کے دو روز بعد ہی اسلام آباد ہائی کورٹ نے میاں نواز شریف اور ان کی بیٹی اور داماد کی سزا معطل کر دی اور ان کو ضمانت پر رہائی مل گئی ۔ایسا میں اب ہر کسی کی زبان پر یہی سوال ہے کہ اب نوازشریف کا سیاست میں آئندہ کا لائحہ عمل کیا ہوگا ۔ لیکن ایک انسان ہونے کے ناتے سے یہ ہم اچھی طرح سمجھ سکتے ہیں کہ ان کے لئے ابھی اتنے بڑے صدمے سے نکل کر سیاست کے بارے میں سوچنا بہت مشکل ہوگا ۔اس وقت تو ان کے ذہن میں ان یادوں کا غلبہ ہوگا جو بیگم کلثوم نواز کے ساتھ جڑی ہیں لیکن انھی یادوں میں آج کے وزیراعظم اور اپنے گزرے وزارت اعظمی کے دور کے اس ٹکراؤ کی یادیں بھی ضرور ہونگی جوان کی جیل جانے کی بنیاد بھی بنی ہیں۔وہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ آج کے نئے منتخب وزیر اعظم عمران خان نے کیسے دھرنے پر دھرنے دے دے کر ان کے خلاف مقدمات کی وہ ابتدا کر وادی تھی جس کی سزا ابھی انھوں نے بھگتی ہے اور جانے کتنی بھگتنی باقی ہے ۔ لیکن اگر ملکی مفاد کے لئے سوچے تو ان کی رہائی سے کم از کم اس بدلے کے جذبات کی شدت میںضرورکمی ہوجانی چاہیے ہے جس کے جذبات دو سیاست دانوں کے دلوں میں ایک دوسرے کے لئے موجود ہیں کیونکہ یہ رہائی ایک اچھاپیغام دے رہی ہے کہ یہ کوئی بدلہ لینے کی بات نہیں تھی بلکہ ملک میں سزا اور انصاف کے قوانین کے تحت ہی سزا اور رہائی کے معاملات طے پائے ہیں ۔ اگر یہ ذاتی کدورتوں کے معاملات ہوتے تو پھر اڈیالہ سے رہائی ابھی بھی کیسے ممکن ہوتی ۔اگر یہ میاں نواز شریف کو انتخابات سے دور کرنے کے معاملات ہوتے تو پھر کیسے نومولود حکومت ان کی رہائی کے جھمیلے کو برداشت کرتی بلکہ ابھی بھی ٹال مٹول اور تاریخ پہ تاریخ بڑھوا کر ان کی سزا بڑھوائی جاتی تاکہ نئے حکومت کو ٹھیک سے قدم جمانے کا خوب موقع تو میسر آجاتا ۔ یہ بہت اچھا پیغام گیا ہے کہ جب سزا ہونی تھی ہوگئی اور جب اس سزا کو معطل کرنا قانونی اور انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق تھا تو سزا بنا کسی تعطل کے معطل کر دی گئی ۔ اس میں کسی رکاوٹ ڈالنے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی ۔ البتہ کہنے والے تو یہ بھی کہتے رہے ہیں کہ ایک بار پھر یہ رہائی کسی ڈیل کا حصہ ہے کیونکہ سیاست کی لمبی عمر میں میاں نواز نے سعودیہ ، امریکہ اور مودی سے اتنے بہترین تعلقات استوار کر ہی لئے تھے کہ نو منتخب وزیر اعظم پاکستان کے لئے ان کی رہائی کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔ ابھی ملک جس معاشی بدحالی کے دور سے گزر رہا ہے اس سے نکلنے کے لئے مضبوط مستحکم مملکتوں کے کندھوں کی ضرورت ہے جو اسی شرط پر ممکن تھی کہ ٖفی الحال میاں نواز کو اڈیالہ سے باہر نکالا جائے ۔ جو بھی ہو لیکن اگر ملکی مفاد کے لئے بدلے کے جذبات کو دلوں سے نکال کر سوچا جائے تو ملک کے لئے اس سے بہتر کیا ہوسکتاہے ۔ اور اگر میاں نواز شریف اپنا لائحہ عمل ترتیب دیتے وقت ملکی حالات کو مد نظر رکھیں گے تو عین ممکن ہے آیندہ آنے والے دنوں میں ملک میں کسی بڑی سیاسی ہل چل کی خبریں محض افواہیں ہی بن کر رہ جائیں۔
تازہ ترین